پی ڈی ایم نئی یلغار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 پی ڈی ایم کی تحریک کادوسرامرحلہ شروع ہوچکاہے جس کے تحت مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں اس سلسلے میں گزشتہ روزمردان میں پہلی ریلی نکالی گئی جس میں بڑی تعدادمیں عوام نے شرکت کی اورپی ڈی ایم رہنماؤں نے ایک مرتبہ حکومت کوآڑے ہاتھوں لیا۔

پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں اورلانگ مارچ کے حوالے سے تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے سیاسی درجہ حرارت میں شدت آتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اسلام آبادکے یخ بستہ موسم بھی بہت سے لوگوں کوپسینے چھوٹے ہوئے ہیں ،کچھ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں دیواروں سے بھی یہ پوچھتے نظرآتے ہیں کہ آگے کیاہوگا ؟۔

ایسے ہی کچھ عناصرکی طرف سے مولانافضل الرحمن کے خلاف ایک تندوتیزمہم شروع کی گئی ہے، مولانا فضل الرحمن کو ایک نئی یلغارکاسامناہے ظاہرہے کہ یہ مہم انہیں توڑنے ،جھکانے اورحکومت مخالف تحریک سے دستبردارہونے کے لیے کی جارہی ہے۔

مولانافضل الرحمن کو اس قسم شرانگیزمہم کاسامناپہلی بارنہیں کرناپڑرہاہے اس سے پہلے بھی متعدد بار حکمران اورپس پردہ قوتیں یہ کارنامہ سرانجام دے چکی ہیں مگریہ تمام کوششیں اورسازشیں پہلے بھی ناکام ہوئیں اور مولانافضل الرحمن ہمیشہ سرخروہوئے ہیں ہرطوفان سے انہوں نے کشتی کو نکالا ہے تمام غیرقانونی ہتھکنڈوں کے جواب میں مولانا نے آئین وقانون کی بات کی ہے اوریہی ان کی کامیابی کی رازہے اوراس مرتبہ بھی مولاناان بھول بھلیوں میں الجھنے کی بجائے مسلسل منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

حکومت مخالف تحریک کے سرخیل مولانافضل الرحمن ہیں اس لیے سب سے زیادہ ہدف بھی وہی ہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ خطرہ صرف مولاناہیں جب تک اس مولانا کا بندوبست نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک حکومت اوراس کے بہی خواہ سکھ کاسانس نہیں لے سکتے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ یہ مہم چاروں اطراف سے شروع کی گئی ہے۔

ایک طرف حکومتی وزاراء مولانافضل الرحمن کے خلاف کرپشن کے جھوٹے قصے سناکراپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں تودوسری طرف نیب کی انکوائریوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اربوں روپے کی اراضی اورپراپرٹی مولاناکے نام بتائی جارہی ہے۔

تیسری طرف پی ڈی ایم میں اختلافات کی جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں جبکہ چوتھی طرف مولانا کوزچ کرنے کے لیے ان کی جماعت کے سینئررہنماء مولانامحمدخان شیرانی ودیگر کومیدان میں اتارا ہے بلوچستان کے دوردرازعلاقے لورالائی میں پشتومیں ان کی تقریرکوٹی وی چینلزپرمینیج کرکے چلایاگیا ورنہ یہ وہی شیرانی ہیں جوسالہاسال اسلام آبادمیں رہے مگرمیڈیاانہیں منہ تک نہیں لگاتاتھا ۔

طرفہ تماشایہ بھی ہے کہ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ مولانافضل الرحمن کی جان کوخطرہ ہے تودوسری طرف مولاناکے ساتھ رہی سہی سیکورٹی بھی واپس لی جارہی ہے ،حکومت اتنازورملک کے مسائل حل کرنے میں صرف نہیں کررہی جتنازورمولاناکوگرانے کے لیے لگایاجارہاہے ۔

وزیراعظم اپنے ترجمانوں کو مولانافضل الرحمن کی کردارکشی کاٹاسک دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اب مولاناکوحساب دیناہوگامگرعین اسی وقت یہ خبرسامنے آتی ہے کہ سی ڈی اے نے اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کا کام مکمل ہوئے بغیر وزیراعظم عمران خان کے گھر کا نقشہ منظور کر لیا ہے،بنی گالہ میں و اقع وزیراعظم کے گھر کو ریگولر ائز کردیا گیا مگرحکومت سے یہ کوئی نہیں پوچھتاکہ غریبوں کی جھونپڑیاں گرانے ،تجاوزات اورغیرقانونی تعمیرات کے نام پرلوگوں کی دوکانیں اورپلازے گرانے کاحساب کون دے گا ؟۔

اس حکومت کوبرسراقتدارآئے ہوئے ڈھائی سال سے زائدکاعرصہ گزرچکاہے مگرحکومت مولانافضل الرحمن کی کرپشن کاایک کیس بھی سامنے نہیں لاسکی ہے ،البتہ مولاناکی کردارکشی کے لیے ان کے پاس بہت کچھ ہے ،آئے روزنت نئے بیانیے کے ساتھ شرانگیزمہم شروع کی جاتی ہے جس کاحاصل کچھ نہیں نکلتاکیوں کہ مولاناکے ماننے والے نظریاتی کارکن ہیں وہ مولاناکوہراعتبارسے پرکھ چکے ہیں ۔

مولاناکارہن سہن وہ دیکھ چکے ہیں مولاناکی چالیس سالہ سیاسی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ان کے سامنے ہے حکومت کی طرف سے کیاجائے والامیڈیاٹرائل ان کارکنوں کوگمراہ نہیں کرسکتا کیوں کہ ان کاکارکن سمجھتاہے کہ حکومت کی طرف سے یہ اقدام مولاناکے حق پرہونے کی دلیل ہے اوروہ پہلے سے بڑھ کرمولاناکے مؤقف کے ساتھ جم کرکھڑاہوتے ہیں البتہ حکومت اپنے دل کوجھوٹی تسلی دے کرتھوڑی دیرکے لیے سکون حاصل کرلیتی ہے ۔

ہرنااہل حکومت اپنی کارکردگی بہتربنانے کی بجائے مخالفین کوتوڑنے پرزورصرف کرتی ہے مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کوبھی اندرونی بغاوتوں کاسامناہے ان کی صفوں میں بھی انتشارپھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچستان سے ہی اہم رہنماء میاں نوازشریف کوداغ مفارقت دے گئے پیپلزپارٹی پرہاتھ ہولارکھاجارہاہے کیوں کہ ا ن سے ابھی امیدہے کہ وہ قت آنے پروہ سہارہ بنیں گے انہیں صرف اعتزازاحسن کے باغیانہ بیانات سے ڈرایاجارہاہے جس دن پیپلزپارٹی نے ناں کردی اس دن وہاں سے بھی ،،انقلابی ،، نکل آئیں گے ،یہ سب ساماں ایسی حکومت کوبچانے کے لیے کیاجارہاہے جس نے ملک کودلدل میں دھکیل دیاہے ملک کاکوئی بھی طبقہ حکومت سے خوش نہیں مہنگائی اوربے روزگاری نے عوام کاستیاناس کردیاہے۔اورملک ان سے چل نہیں رہاہے۔

حکومت اپوزیشن کی تحریک کاجائزہ لے کریہ جان چکی ہے کہ مولانافضل الرحمن آہنی دیوارہیں اس لیے اس دیوارمیں شگاف ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اب کی باران کی جماعت کے اندرسے کچھ لوگوں کوکھڑاکیاگیاہے اوران کے بیانات کو پزیرائی بخشی جارہی ہے حکومت کی سوچ ہے کہ شایداس طرح ان کاکام آسان ہوجائے مگرجنگ کے وقت دغااوردھوکہ دینے والوں کوتاریخ ہمیشہ میر جعفر اور میر صادق کے نام سے ہی جانتی ہے ،نظریاتی کارکن جان قربان کردیتاہے مگرغداروں کے ساتھ نہیں چلتا۔

مولانامحمدخان شیرانی تین عشروںسے زائد تک بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے امیررہے اورفیصلے کرنے میں وہ مکمل بااختیاررہے یہ ان کے آمرانہ اختیارکاہی نتیجہ ہے کہ حافظ حسین احمد سینئررہنماء کو 2008اور2013میں قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ نہیں ملاکیوں کہ ان کے ٹکٹ کی صوبائی جماعت نے منظوری نہیں دی تھی ۔

یہ مولاناشیرانی کی پالیسیوں کاہی نتیجہ تھا کہ کئی سال تک بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے نام سے ایک دھڑہ قائم رہاگزشتہ سال جماعتی الیکشن میں جمعیت علماء اسلام نظریاتی والے اپناگروپ ختم کرکے واپس جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے توان کی واپسی سے بلوچستان میں شیرانی صاحب کادھڑہ کمزورہوااوریوں مولاناشیرانی کادھڑہ ضلع سے لے کرصوبے تک جماعتی الیکشن ہارگیا۔

پاکستان تحریک انصاف خوشی سے پھولے نہیں سمارہی کہ ان کے ہاتھ مولانافضل الرحمن کے خلافت ترپ کا کارڈہاتھ میں آگیاہے حالانکہ اس سے قبل مولاناطارق جمیل اپناسارااوزن حکومت کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں مگرحکومت کواس حمایت کوزرہ بھربھی فائدہ نہیں ہواالبتہ مولاناطارق جمیل کی شخصیت ضرورداغدارہوئی ،مولانامحمدخان شیرانی کی مولاناطارق جمیل سے زیادہ عوامی پذیرائی نہیں ہے ، مولاناشیرانی اپنی بھرپوراننگزکھیل چکے ہیں وہ عمرکے اس حصے میں ہیں کہ اب سیاست ان کے بس کاکام نہیں۔

انہوںنے 2016میں مجھے انٹرویودیتے ہوئے یہ اعلان کیاتھا کہ وہ اب اپنی تمام توجہ تعلیم کے لیے وقف کریں گے مروجہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے ،مگرنہ معلوم کہ آخری عمرمیں کس کے دام فریب میں آگئے اگرچہ ان کااختلاف جماعت کی پالیسیوں شروع دن سے ہے مگران کایہ اختلاف بندکمروں میں ہوتاتھا اس مرتبہ ایک منصوبے کے تحت وہ ان اختلافات کوبرسرمنبرپرلے کر آئے ہیںجس کامقصدواضح ہے کہ وہ استعمال ہوگئے ہیں ۔

مولانامحمدخان شیرانی نے ایسے وقت میں بغاوت کی جوان کے لیے مناسب نہیں تھاشایدانہیں کچھ پزیرائی مل جاتی مگرانہیں جوتھوڑی بہت عوامی حمایت ملناتھی اسرائیل کوتسلیم کرنے کی بات کرکے وہ حمایت بھی کھودی ہے ۔

Related Posts