پی ڈی ایم میں مسلسل دراڑیں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں دراڑیں پڑنے کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ اب بھی حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے مابین مربوط حکمتِ عملی ناکام نظر آتی ہے۔ استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی تو پیچھے ہٹ ہی چکی ہے جبکہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ن لیگ بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کو اکیلا چھوڑ کر پی ڈی ایم سے منہ موڑ سکتی ہے۔

مستقبل کے عملی اقدامات پر فیصلہ سازی کیلئے پی ڈی ایم نے ایک اور اجلاس منعقد کیا تاہم اپوزیشن اتحاد کسی بھی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام نظر آیا۔ استعفے دینے کی آخری تاریخ بھی گزر گئی تاہم یہ بات یقینی نہیں کہ اپوزیشن کے تمام اراکینِ اسمبلی نے پارٹی قیادتوں کو اپنے استعفے پیش بھی کیے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ آیا حکومت کو گرانے کیلئے پی ڈی ایم اپنے استعفوں کو ہتیھار کے طور پر استعمال کرسکے گی یا نہیں۔ اسلام آباد کے فیصلہ کن لانگ مارچ کی حتمی تاریخ پراس سے زیادہ غیر یقینی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔

پی ڈی ایم اپنا زیادہ تر وقت ان دعووں میں صرف کر رہی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خآن کو ہم نے استعفیٰ دینے کیلئے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یہ تاثر مسترد کردیا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں کوئی دراڑ ہے تاہم اپوزیشن رہنماؤں کے تاخیری حربوں اور مختلف بیانات سے واضح طور پر جب پی ٹی آئی کیلئے میدان صاف نظر آتا ہے تو اس دعوے میں ابہام نظر آتا ہے۔

گزشتہ برس 13 دسمبر کو پی ڈی ایم کے احتجاج کا پہلا مرحلہ اچانک لاہور جلسے کے ختم ہوتے ہی اختتام پذیر ہوگیا اور اگلے مرحلے میں سڑکوں پر احتجاج، شٹر ڈاؤن ہڑتالیں اور ریلیاں نہ نکالی جاسکیں، نہ ہی لانگ مارچ کی کسی واضح تاریخ کا اعلان کیا جاسکا۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں توڑ پھوڑ اور مظاہرے تو ہوئے لیکن حکومت کو گرانے کیلئے عظیم الشان اور حتمی حکمتِ عملی کا آج بھی فقدان نظر آتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمان بھی بظاہر مایوس نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی حکمتِ عملی کام نہیں کر رہی، نیا اشارہ انہوں نے یہ دیا کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کا رخ کرسکتا ہے جس سے براہِ راست فوج سے محاذ آرائی ثابت ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے والا یہ پی ڈی ایم کا پہلا ایسا مشترکہ مؤقف تھا جس پر اس کے سب سے زیادہ پرجوش حامی اختلافات اور ناراضگی کا شکار نظر آئے۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے فوج پر نپی تلی تنقید فقید المثال تھی جس نے پی پی پی جیسے دیگر فریقین کو بھی مؤقف میں لچک پیدا کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ کھلے عام اداروں سے تصادم پر تیار نہیں تھے۔

رواں ماہ اِس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پی ڈی ایم کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرسکے اور وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت سینیٹ انتخابات کے قریب لایا گیا۔ امکان یہ ہے کہ پی ڈی ایم آخری وقت تک سینیٹ انتخابات لڑنے کے اپنے فیصلے کو مؤخر کرے جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے افتاد نے پی ڈی ایم کو ایک ہارا ہوا پہلوان بنا کر حکومت کو حیاتِ نو عطا کردی ہے۔ 

Related Posts