پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے عزم کے ساتھ اپوزیشن جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے آج اپنا پہلا جلسہ کرنے جارہی ہیں، سیاسی حلقوں میں اپوزیشن کی تحریک کے حوالے سے کافی تجسس پایا جاتا ہے تاہم سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ صرف جلسے جلوس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ اپوزیشن جماعتیں جلسے جلوس کو حکومت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم قرار دے رہی ہیں۔
حکومت مخالف تحاریک
یہ سچ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کودہرارہی ہے آج سے 43سال قبل مولانافضل الرحمٰن کے والدمفتی محمود کوبھٹومخالف ایک بڑے سیاسی اتحاد کاسربراہ بنایاگیاتھا اس اتحادمیں اس وقت کے نامی گرامی سیاستدان اصغر خان،نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد و دیگر شامل تھے یہ اتحاد1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تھا اورآج 43سال بعد مفتی محمود کے فرزندمولانافضل الرحمٰن کواپوزیشن جماعتوں کے اتحادپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کاصدربنایاگیاہے ۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ
حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نیا نام نہیں ہے اس پہلے اپوزیشن الائنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ2007 کے بعد منظر عام پر آیا جب صدر پرویز مشرف کے وردی میں انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کے دیگر پارٹیوں کے اختلافات سامنے آئے یوں اے آر ڈی سے علیحدہ ہو کر نواز شریف نے ایک نئے اتحاد کی تشکیل کی جس میں متحدہ مجلس عمل،پاکستان تحریک انصاف،پاکستان مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی شامل تھی اس اس اتحاد کو اے پی ڈی ایم کہا جاتا ہے۔
اس وقت بھی حکومت کیخلاف بننے والے اتحاد میں اپوزیشن تمام بڑے نام جن میں سابق وزارائے اعظم نوازشریف، شاہدخاقان عباسی،یوسف رضاگیلانی ،راجہ پرویزاشرف،سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری ،سابق وزیراعلیٰ پنچاب شہبازشریف ،بلاول بھٹوزرداری ،مریم نواز،محمود خان اچکزئی ،اسفندیارولی خان ،آفتاب شیرپاوسمیت دیگر نامی گرامی سیاستدان موجود ہیں۔
حکومت اور دھرنے
پاکستان تحریک انصاف کو22 سالہ جدوجہد کے بجائے نوازشریف کے دور حکومت میں دھرنے کی وجہ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں 126 دن تک دھرنا دیا ، اس دوران حکومت کیلئے کئی مشکلات آئیں لیکن تحریک انصاف کو مایوس لوٹنا پڑا۔
پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد مولانافضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف پہلے سال میں ہی پورے ملک میں ایک درجن سے زائدملین مارچ کیے جس میں بلاشبہ لاکھوں افرادنے شرکت کی حالانکہ عوام میں تبدیلی کاتازہ تازہ خمارتھا۔
اس کے باوجو دمولانا کے ملین مارچ کامیاب رہے تاہم ان پروگرامات میں اپوزیشن کی جماعتوں کی شرکت واجبی سی رہی بلکہ نہ ہونے کے برابررہی۔
گزشتہ سال مولانافضل الرحمٰن نے کراچی سے اسلام آبادتک تاریخی آزادی مارچ کیامگردیگراپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے اس موقع پربھی ساتھ نہ دیا ۔اب اپوزیشن جماعتوں نے ملکرایک بار پھر حکومت کیخلاف صف بندی کرلی ہے۔
اپوزیشن کے حالات
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اپنے برجستہ جملوں کی وجہ سے میڈیا میں ہمیشہ چھائے رہتے ہیں اور گزشتہ روز انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دھرنوں سے حکومت ختم نہیں ہوتی ، ہم نے بھی نوازحکومت کیخلاف دھرنا دیا تھا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
شیخ رشید کی بات بالکل درست ہے اور وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی اپوزیشن تحریک سے زیادہ پریشان نہیں ہے تاہم اگر دیکھا جائے تو حالات یہ ہیں کہ اپوزیشن کے پاس کھونے کوکچھ نہیں ،ن لیگ کے قائدمیاں نوازشریف تاحیات نااہل ہوکرملک سے باہربیٹھے ہیں۔
اپوزیشن لیڈرمیاں شہبازشریف اپنے بیٹے سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ،آصف علی زرداری اوران کے خاندان کودرجنوں مقدمات کاسامناہے،بلاول بھٹواورمریم شریف ابھی سیاست میں نوخیزہیں چھوٹی اپوزیشن جماعتیں بکھری ہوئی ہیں ، ایسے میں اپوزیشن اتحاد حکومت کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنا دفاع بھی مضبوطی سے کرلے تو شائد غنیمت ہوگا۔
حکومت کو درپیش خطرات
اپوزیشن کی تحریک محض جلسے جلوس سے حکومت کو مشکل میں تو ڈال سکتی ہے لیکن ختم نہیں کرسکتی تاہم حکومت کی اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں حکمرانوں کی رخصتی کا سبب بن سکتی ہیں۔پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے والوں کاسب کچھ داؤپرلگاہواہے۔
چند ووٹوں کے سہارے وفاق اورپنچاب میں حکومتیں قائم ہیں ،اوپرسے بیڈگورننس نے حکومت کا برا حال کردیا ہے، آئے روز وزاراء کی لڑائیاں منظرعام پرآتی رہتی ہیں، متعد دممبران ایسے ہیں کہ جوپہلی مرتبہ اسمبلی میں پہنچے ہیں، گلگت بلتستان الیکشن کے بعد سینیٹ الیکشن سرپرہیں ایسے میں حکومت کوپھونک پھونک کرقدم اٹھاناہوں گے، حکومت کی ذراسی غلطی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔