پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا پاور شو، کیا ملک میں نیا سیاسی بحران آنے والا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا پاور شو، کیا ملک میں نیا سیاسی بحران آنے والا ہے؟
پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کا پاور شو، کیا ملک میں نیا سیاسی بحران آنے والا ہے؟

پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، خاص طور پر اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد صورتحال تشویش ناک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا، جب کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ  کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن اتحاد نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 23 مارچ کو کانسٹی ٹیوشنل ایونیو اسلام آباد میں سیاسی پنجہ آزمائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 

کراچی میں فوڈ پانڈا رائیڈرز نے ہڑتال کیوں کی؟

تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک ہی مہینے کے دوران ایک ہی شہر میں بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان کسی تصادم کا باعث بن سکتا ہے، جیسا کہ قوم حال ہی میں پارلیمنٹ لاجز میں ایک ٹریلر دیکھ چکی ہے جب اراکینِ اسمبلی نے گرفتاری دی تھی۔ 

تحریکِ انصاف اور ڈی چوک

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پیر کے روز 27 مارچ کو ڈی چوک میں بڑا جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کیلئے ووٹ ڈالنے والے قانون سازوں کو متنبہ کیا گیا کہ انہیں پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے لیے 10 لاکھ کے ہجوم سے گزرنا پڑے گا۔

تاہم، حکمران اتحادی جماعتوں میں سے ایک نے پی ٹی آئی کے منصوبہ بند پاور شو پر سخت تحفظات کا اظہار کیا اور وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا کہ وہ تصادم کی سیاست کرنا بند کریں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر حکومت دھرنا دیتی ہے تو ہم ان کی درگت بنائیں گے۔ 

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو 27 مارچ کو ڈی چوک میں جمع کرنے کا فیصلہ حکمران جماعت کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت وزیر اعظم نے کی۔ اجلاس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم نے کمیٹی ممبران کو ڈی چوک پر 10 لاکھ افراد کا مجمع جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پی ڈی ایم کا لانگ مارچ

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نے پوری قوم سے حکومت مخالف لانگ مارچ کے لیے 23 مارچ کو وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کرنے کی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو چھٹی کا دودھ یاد دلائیں گے۔ 

اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں سے کہا کہ وہ 23 مارچ کو زبردست پاور شو کے لیے اسلام آباد پہنچیں۔ریلی نکالی جائے گی۔ 

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے سے شاہراہ دستور تک ایک تاریخی ریلی نکالیں گے جس کے ذریعے اراکین پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایوان تک پہنچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔

وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی انتظامات

اسلام آباد میں سیاسی درجۂ حرارت عروج پر پہنچنے کے بعد وزارت داخلہ نے اسلام آباد کے ریڈ زون کی سیکیورٹی تقریباً 2ہفتوں تک تک رینجرز اور ایف سی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد عوام کی حفاظت ہے۔ 

وفاقی وزارت داخلہ نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رینجرز کو 20 مارچ سے 2 اپریل تک اسلام آباد کے ریڈ زون میں طلب کیا جائے گا۔ رینجرز اور ایف سی کے 2 ہزار اہلکار سکیورٹی انتظامات کا حصہ بنیں گے۔ 

تحریکِ عدم اعتماد 

حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کر رہے ہیں اور اس اقدام پر قانونی کارروائی کے لیے پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے بڑے پیمانے پر عوامی اجتماعات منعقد کرنے کا چیلنج دیا جارہا ہے۔

قانون کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ریکوزیشن جمع کرانے کے 14 دن کے اندر ایوان کا اجلاس بلانے کا پابند ہے تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت مطلوبہ اراکین پورے کرنے کیلئے جان بوجھ کر قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کر رہی ہے۔ 

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

پاکستان کی سیاست میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں رہیں اور یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جب پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے کارکنان اسلام آباد میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کریں گے تو کوئی انہونی ہوسکتی ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تصادم سے گریز کیا جائے اور ملک کے بہترین مفاد میں آپس کے اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ 

Related Posts