حب الوطنی اور ترقی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی بھی ریاست کی ترقی کے لئے حب الوطنی سب سے اہم چیز ہے،یہ ایک ترقی یافتہ قوم کی پہچان ہے کہ اس کے شہری محب وطن اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں۔ وہ اپنے ملک پر فخر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تعلیم اور مدد فراہم کرکے اپنے معاشرے کی بہتری میں شراکت کرتے ہوئے ایک بہتر مقام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہم ان اخلاقی اقدار کو فراموش کر چکے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھائیں اور ہم خود غرض اور مغرور ہو گئے ہیں۔ ہم ذمہ داری قبول کرنے سے قاصر ہیں اور اپنی بدگمانیوں کا الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔ ہم لینے والے بن چکے ہیں دینے والے نہیں ۔

مجھے یہ یاد ہے کہ لیاقت علی خان اور ان کی اہلیہ نے آزادی کے بعد دہلی میں اپنی ذاتی رہائش ریاست پاکستان کو دی تھی۔

آج اسے پاکستان ہاؤس کہا جاتا ہے اور وہ نئی دہلی میں ہائی کمشنر کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ آج کل ہمارے قائدین صرف دولت جمع کرنے اور اثاثوں بنانے میں دلچسپی لیتے ہیں اورتاجر قوم کی ترقی کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ملک میں بننے والی مختلف حکومتوں نے صنعتوں کو بڑے پیمانے پر مراعات فراہم کیں لیکن ہم نے قیمتوں میں کمی ، ملازمت کے زیادہ مواقع پیدا کرنے یا اجرت میں اضافے کی صورت میں کوئی ریلیف نہیں دیکھا۔

اشرافیہ نے فوائد کو منظور نہیں کیا جس کی وجہ سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر پولرائزیشن پایا جاتا ہے۔ امیر دن بدن امیر ہوتا جارہا ہے اور ہر ایک گزرتے دن کے ساتھ غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔

ہمارا معاشرہ کیسے بدلے گا؟ کیا ہمارے پاس بشپ لوبو جیسا شخص ہوگا جس نے سینٹ مائیکل اسکول کی بنیاد رکھی اور بچوں کو خود نظم و ضبط اور ایک اچھے انسان ہونے کی اہمیت سکھائی؟ کیا ہمارے پاس ایک اور عبد الستار ایدھی جیسی شخصیت ہوگی جس نے پوری زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کی اور ہمیں ہمدردی کا پیغام دیا؟۔

آج ہمیں بہت سے نفرت انگیز مبلغین کا سامنا ہے جو بے بنیاد افواہوں کو پھیلاتے ہوئے فرقے ، زبان اور نسل پرستی کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہمارے لالچ نے ہمارے دلوں سے اپنے ملک کی اہمیت کو ختم کردیاہے اور آج ہم صرف اپنے بارے میں فکرمند ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم دنیا میں جہاں بھی جائیں گے ہم اپنے ملک کو یاد رکھیں گے۔ ہمارے اقدامات اس بات کی وضاحت کریں گے کہ ہمارے ساتھ کس طرح سلوک کیا جاتا ہے اور پاکستان کے لئے ساکھ پیدا ہوتی ہے۔

ہمیں اپنے ملک کی ترقی کیلئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ پوری دنیا میں ہماری عزت ہو۔ ہم خود ہی چھوٹے اقدامات سے خود کو بہتر شہری بنانے سکتے ہیں، قانون کی تعمیل کرنے یا اپنے محلے کی صفائی کرکے ہم معاشرے کی بہتری کیلئے کام شروع کرسکتے ہیں۔

اگر ہر ایک اپنے اپنے علاقے کی ترقی کیلئے کام شروع کردے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل حل نہ ہوں اور ہمیں اپنے اداروں کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ افواج پاکستان کی بدولت آج ہم اپنے گھروں میں سکون کی زندگی گزار رہے ہیں ۔

Related Posts