پاکستان قرضوں کے بحران کا شکار ہے جس سے اس کے معاشی اور سماجی استحکام کو خطرہ ہے۔ پاکستان کو اربوں کا قرضہ ادا کرنا ہوگا، لیکن ریاست کے خزانے تقریباً خالی ہیں۔سیاسی عدم استحکام، کورونا وائرس کی وبا اور تباہ کن سیلاب سے متاثر ملک کی درآمدات پر منحصر معیشت مہینوں سے ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے کیونکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
ملکی اور بیرونی وسائل سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کی وجہ سے مئی 2023 کے آخر میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کا ذخیرہ 59 ٹریلین روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 11 مہینوں کے دوران مرکزی حکومت کے کل قرضوں (ملکی اور بیرونی) میں 23 فیصد کا اضافہ ہوا۔
قرضوں میں اضافے کے پیچھے بنیادی عوامل کرنسی کی قدر میں کمی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہیں۔یوکرین پر روس کے حملے نے عالمی خوراک کی سپلائی میں تناؤ پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ قدرتی گیس اور تیل جیسی توانائی کی سپلائی بھی بند ہو گئی ہے۔تجارتی خسارے کے باعث پاکستان کی معیشت میں غیر ملکی کرنسیوں کی طلب اس سے زیادہ ہوتی ہے جو مرکزی بینک فراہم کر سکتا ہے۔
جب حکومت بیرون ملک سے قرضہ لیتی ہے تو اس سے ملک کے غیر ملکی ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے قرضوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔قرض کا مسئلہ ملک کے عوام اور ان کے مستقبل کے امکانات کے لیے متعدد نتائج کا حامل ہے۔ قرضوں کی رقم زیادہ ترحکومتی محصولات میں استعمال ہوجاتی ہیں، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر ترقیاتی اخراجات کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔
قرض کا مسئلہ خاص طور پر اشیائے خوردونوش کے لیے مہنگائی کی اونچی شرح عوام کی قوت خرید کو ختم کردیتا ہے اور انہیں مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے، قرض کا مسئلہ جتنا بڑا ہے، یہ ناقابل تسخیر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے حکومت اور معاشرے کی جانب سے فوری اور جامع اقدام کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اپنی معیشت کوبہتر بنانے، اپنی برآمدات کو بڑھانے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اپنی ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے، اپنے فوجی اخراجات کو کم کرنے، اپنے انسانی سرمائے کو بڑھانے اور اپنے قرض دہندگان کے ساتھ بہتر شرائط پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔قوم کو احتساب، شفافیت اور جدت کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے جو قدر پیدا کر سکے اور بیرونی ذرائع پر انحصار کم کر سکے۔