امریکی میڈیا (اے پی) کی 7اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ ملک سے افغان غیر ملکیوں کو زبردستی بے دخل کرنے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوسکتی ہیں۔
مذکورہ خلاف ورزیوں میں خاندانوں کا بچھڑ جانا اور نابالغوں کی ملک بدری جیسے معاملات شامل ہیں جبکہ پاکستان حال ہی میں اعلان کرچکا ہے کہ ملک میں دہائیوں سے مقیم غیر قانونی تارکین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ زیادہ تر افغان باشندے مبینہ طور پر دہشت گردی سمیت دیگر غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی گزشتہ ہفتے میڈیا بریفنگ کے دوران کہہ چکے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن میں 17لاکھ افغان باشندے شامل ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی خود کو اقوامِ متحدہ یا پاکستان میں رجسٹرکروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حکومت نے افغانیوں سمیت تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31اکتوبر تک ملک سے نکل جانے کا کہا تاکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ملک بدری کی نوبت نہ آئے۔
ماضی میں پاکستان نے بارہا اقوامِ متحدہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے غیر قانونی افغان مہاجرین کی غیر ضروری مصروفیات اور 1980ء کی دہائی کے اوائل سے یہاں قیام سے بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ کی شکایت کی تاہم اقوامِ متحدہ کا ہائی کمیشن برائے پناہ گزین یہ معاملہ حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اس لیے اقوامِ متحدہ کا پاکستان کو متنبہ کرنے والا بیان عجیب و غریب اور بلا جواز محسوس ہوتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے پاکستان کو اس لیے بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ پاکستان کی بار بار درخواست کے باوجود ہماری شکایات پر کان تک نہیں دھرے گئے۔
فی الحقیقت پاکستان کو معاشی بوجھ کے ساتھ ساتھ افغان باشندوں کی جانب سے اغوا برائے تاوان، منشیات اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم کا بھی سامنا رہا ہے۔ موجودہ دور میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، بھتہ مافیا اور دہشت گردی جیسے واقعات میں زیادہ تر افغانیوں کے ملوث ہونے کے باعث بھی پاکستان کو یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ افغان شہری بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملوں میں ملوث پائے گئے۔
بہتر ہوگا کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یہ بات نوٹ فرما لیں کہ پاکستان کی معیشت اب افغانیوں کا مزید بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ دوم پاکستان کی تیزی سے سکڑتی بلکہ ڈوبتی ہوئی معیشت رجسٹرڈ افغان مہاجروں کا بوجھ بھی برداشت کرنے کی اہل نہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کردیا جائے گا اور ریاستی اداروں کو اس بات پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن یہاں کن کاموں میں مصروف تھے۔ پاکستان کی سلامتی اقوامِ متحدہ کے لنگڑے لولے الزامات اور اس بلا جواز وارننگ سے کہیں زیادہ ضروری ہے جس سے پاکستان میں غیر قانونی واقعات میں ملوث مجرموں کو تحفظ فراہم ہوتا ہو۔
افغانوں کو نشانہ بنانے والے الزام کی تردید تو پاکستان پہلے ہی کرچکا کہ ہماری توجہ ان لوگوں پر مرکوز ہے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں، چاہے ان کی قومیت کچھ بھی ہو۔ غیرقانونی تارکینِ وطن کی اطلاع دینے کیلئے ہاٹ لائن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور حکومت نے ایسے لوگوں کو انعام دینے کا بھی وعدہ کیا جو تارکینِ وطن کے متعلق اطلاع دیں۔
رواں ہفتے کے آغاز سے ہی کریک ڈاؤن شروع ہوا اور اب تک ملک بھر میں 2000 سے زائد افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ خواتین اور لڑکیوں کیلئے پریشان نظر آتا ہے جن کی تعلیم پر افغان طالبان نے پابندی عائد کررکھی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے افغان مہاجرین کیلئے پاکستان کو تعاون کا بھی یقین دلایا ہے۔
آخر میں راقم الحروف یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے پاکستان کے غیر قانونی مقیم تارکین کے متعلق بیانات کو درست طور پر سمجھا نہیں اور غیر معقول طور پر اس کا غلط مطلب لیا یا پھر یہاں افغانیوں کے غیرقانونی قیام کے طول کو فروغ دینا مقصود ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کا کوئی بھی ادارہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ، منشیات کی تجارت، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے غیر قانونی تارکینِ وطن کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟