امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی اور چینی ہم منصبوں سمیت 40 عالمی رہنماؤں کو آئندہ ماہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں مدعو کیا ہے۔ تاہم پاکستان کو مدعو شدہ ممالک کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے، اس صورتحال بعد پاکستان کے امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔
اس اقدام نے تجزیہ کاروں کو یقینا حیرت میں مبتلا کردیا ہے کہ آیا نئی امریکی انتظامیہ نے کسی گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنادیا ہے، یہ بات پر قابل غور رکھنی چاہئے کہ چین کے اچھے تعلقات کے باعث پاکستان واشنگٹن میں اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔کیا امریکہ نے معیارات کی پیروی کی ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور اس کے خلاف پاکستان نے عالمی سطح پر ایک قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔
بہت سے چھوٹے ممالک جیسے کہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور چھوٹے بحر الکاہل جزیرے والے ممالک کو مدعو کیا گیا ہے۔ بائیڈن نے عداوت کے باوجود چین اور روس کو بھی مدعو کیا ہے،کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں وہ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود، بہت سارے پاکستانیوں نے پاکستان کے خارج ہونے پر حیرت کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پی ٹی آئی حکومت کی مرکزی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے ماحولیاتی تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کئے، بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا۔ ورلڈ اکنامک فورم اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے ان کا اعتراف کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کاربن اخراج کرنے والے ممالک کی فہرست میں سب سے کم اخراج والے ممالک میں آتا ہے، اس لئے اس کو مدعو نہیں کیا گیا۔ تاہم، بہت سے دوسرے ممالک جو غریب ممالک کی فہرست میں آتے ہیں،انہیں مدعو کیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا قریبی شراکت دار ہونا دعوت نامے کے اہل ہونے کے لئے ایک اہم معیار ہے۔
یہ سربراہی اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ پیرس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوگیا ہے۔ اس کا مقصد مضبوط آب و ہوا سے متعلق اقدامات کے فوری اور معاشی فوائد کی نشاندہی کرنا ہے کیونکہ مدعو کردہ ممالک کاربن کے 80 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کو اس اجلاس میں نہ بلانے سے بائیڈن کے ساتھ حکومت کے تعلقات پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ابھی تک بائیڈن سے براہ راست رابطہ نہیں کیا ہے۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے، چین کی بالادستی کے باوجود پاکستان اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ اس صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اسٹریٹجک تعلقات کو دوبارہ بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔