پاکستان نے آمدنی سے ستر فیصد زیادہ اخراجات کر کے ریکارڈ قائم کیا،میاں زاہد

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
پاکستان نے آمدنی سے ستر فیصد زیادہ اخراجات کر کے ریکارڈ قائم کیا،میاں زاہد
پاکستان نے آمدنی سے ستر فیصد زیادہ اخراجات کر کے ریکارڈ قائم کیا،میاں زاہد

کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کو اپنے وسائل کے مطابق اخراجات کرنا ہونگے تاکہ ملک کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

حکومت کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ تمام طبقات پران کی آمدنیوں کے مطابق اس طرح تقسیم کرنا ہو گا کہ وہ اس کڑوی گولی کونگلنا قبول کرلیں اور ان میں بے چینی جنم نہ لے۔

اس وقت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا ہدف تنخواہ پیشہ اور غریب عوام بن رہے ہیں جو ملکی مفادات کے خلاف ہے اور اس کے نتیجہ میں عدم استحکام جنم لے رہا ہے۔

اسکی ایک مثال ٹیلی کام ٹیکس ہے جس میں پری پیڈ کنکشن استعمال کرنے والے غریب صارفین کو ہدف بنایا گیا ہے جبکہ پوسٹ پیڈ کنکشن استعمال کرنے والے صارفین جنکی تعداد چند فیصد ہے کو ہدف نہیں بنایا گیا ہے کیونکہ وہ ٹیکس ایڈجسمنٹ کر لیتے ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کا مقصد مائیکرو اکنامک استحکام ہونا چائیے تاکہ ملکی معیشت پائیدار بنیادوں پر استوار ہو سکے۔

ارباب اختیار کو ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں کو ختم کرنا ہو گااور معیشت میں مسابقت کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے اور موجودہ ٹیکس گزاروں پر بوجھ بڑھا نے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو توسیع دینا ہو گا۔

حکومت کے پاس بجلی اور گیس کے تمام صنعتی اور کمرشل صارفین کا سالہا سال کا ڈیٹا موجود ہے مگر انھیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جا رہا ہے جو حیران کن ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں حکومت کے اخراجات اسکی آمدنی سے ستر فیصد زیادہ تھے جو تمام اہم ترقی پزیر ممالک میں ایک ریکارڈ ہے۔

پاکستان کے بعد مصر، لبنان، سری لنکا اور گھانا کا نمبر آتا ہے جن کے قرضے انکی آمدنی کے چالیس فیصد سے تجاوز کر گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ تیس سے زیادہ ممالک کے قرضے کبھی انکی آمدنی کے تیس فیصد تک بھی نہیں پہنچے ہیں۔

آمدنی اور اخراجات کے فرق کو پورا کرنے کے لئے قرضے لینے کے بعد انکی ادائیگی کے لئے ضروری اخراجات میں کٹوتی کی جا رہی ہے جس سے صحت، تعلیم، انفر اسٹرکچر اور دیگر اہم شعبے بری طرح متاثرہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: تعمیراتی صنعت کا پاکستان کے جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ہے،محسن شیخانی

2019 میں پاکستان کے قرضے حکومت کی آمدنی سے سات گنا زیادہ ہو گئے تھے اور قرضوں و سود کی ادائیگی پر حکومت اپنے کل آمدنی کا تقریباً ستر فیصد خرچ کر رہی تھی۔

Related Posts