گزشتہ دنوں پاکستان کے جنوب مغربی پڑوسی ایران کی جانب سے انتہائی غیر متوقع طور پر پاکستانی علاقے پنجگور پر میزائل حملہ کیا گیا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان شدید سفارتی اور فوجی تناؤ پیدا ہوا، جس کا اختتام اللہ اللہ کرکے پاکستان کی جانب سے ایران پر اسی انداز کے حملے کے ساتھ ہوا۔
ایران کی طرف سے دہشت گردوں کی موجودی کی آڑ میں پاکستانی حدود میں حملہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی متعدد بار ایران پاکستان کی سرزمین پر مبینہ طور پر ایران میں کارروائیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کی موجودی کا الزام لگا کر پاکستانی سرحدوں میں کارروائیاں کر چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی شرافت کو کمزوری پر محمول کرکے ایران نے ایسی کارروائیاں کرنے کی عادت ہی بنالی تھی، جس کا جواب انتہائی ضروری تھا۔
ایران کی جانب سے پاکستانی حدود پر حملہ عین اسی روز کیا گیا ہے جب ایرانی وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اور ایران کی جانب سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں۔ جس سے بجا طور پر یہ سوال پیدا ہو رہا تھا کہ کیا یہ حملہ بھارت کی فرمائش پر کیا گیا؟ پاکستان نے ہر بار ایران کو اپنی سرزمین کے اندر ایسی کارروائیوں سے باز رہنے کا کہا ہے اور پڑوس کا پاس لحاظ رکھتے ہوئے پر امن انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں کسی بھی عنوان سے حملوں اور مسلح کارروائیوں کا ایران کو کوئی حق نہیں، وہ از خود فیصلہ کرکے کوئی بھی کارروائی کرنے کی بجائے ذمے دار ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی مشکوک، قابل اعتراض اور اپنے لیے خطرہ بننے والی سرگرمیوں کی اطلاع متعلقہ چینلز کے ذریعے پاکستان کو فراہم کرے۔
ہر ملک کی طرح یہ پاکستان کی بین الاقوامی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے دے، پڑوسیوں کو امن کی ضمانت فرہم کرے اور ساتھ ہی یہ پاکستان کا ہی اختیار ہے کہ اپنی حدود میں کسی بھی ملک کیلئے کوئی خطرہ پنپ رہا ہو تو مناسب اقدام کے ذریعے اس کا سدباب کرے، مگر اس کا کوئی قانونی، اخلاقی جواز نہیں کہ کوئی ملک اپنے لیے خطرے کے عنوان سے دوسرے ملک کی سرزمین پر حملہ کرے، بین الاقوامی قانون کی رو سے ایسا کوئی بھی عمل سرحدوں سے تجاوز اور متعلقہ ملک کیخلاف اعلان جنگ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے سنگین مضمرات اور نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
دنیا کا کوئی بھی ملک نہ صرف یہ گوارا اور قبول نہیں کرسکتا کہ دوسرے ملک میں اس کی سلامتی اور خود مختاری کے منافی کوئی سرگرمی منظم ہو، بلکہ یہ بھی دنیا کے ہر آزاد اور خود مختار ملک کیلئے نا قابل قبول ہے کہ کوئی ملک کسی بھی خطرے اور خدشے کو بنیاد بنا کر اس کی سرزمین میں مسلح کارروائی کرے۔
ایران اقوام متحدہ کا رکن اور سرحدوں کے تقدس کو تسلیم کرنے والے عالمی معاہدات کا فریق ہے، جس کے ناتے ایران کو سرحدوں کے احترام اور سرحدوں کے حوالے سے قوموں کی حساسیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ سرحدیں اس لیے قائم کی جاتی ہیں کہ کسی کو تجاوز کی ہمت نہ ہو، بین الاقوامی معاہدوں کی رو سے ایران نے بھی سرحدیں کھینچ رکھی ہیں اور اس کیلئے بھی اپنی سرحدوں سے کسی بھی قسم کا غیر مجاز تجاوز قابل قبول نہیں ہے اور اس نے اپنی سرحدوں کا بھرم قائم رکھنے کیلئے فوج بھی سرحد کی حفاظت کیلئے لگا رکھی ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ ایران کو اپنی سرحدوں کے اندر ایسی کارروائیاں قبول نہیں ہیں اور ایسا کرنا بلا شبہ ایران کا حق ہے، اس کا حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا تحفظ یقینی بنائے اور کسی بھی غیر مجاز تجاوز کو تمام دفاعی صلاحیتیں بروئے کار لاکر روکنے کا اہتمام کرے۔
اپنی سرحد کے تحفظ اور اپنی حریم کے دفاع کے اس حق کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور اقوام متحدہ کے توسط سے پوری دنیا ہر ملک کی سرحدوں اور اس کی خود مختاری کے احترام کی پابند ہے، تاہم امن اور سلامتی کی فضا کیلئے اپنی سرحدوں کے تئیں پائی جانے والی حساسیت کو دوسرے ملکوں کیلئے تسلیم کرنا بھی ضروری ہے، ایسے نہیں ہوسکتا کہ اپنی سرحدوں کو تو مقدس اور محترم سمجھا جائے، مگر دوسروں کی سرحدوں کا کوئی احترام نہ کیا جائے۔ بد قسمتی سے ایران اسی یکطرفہ سوچ کے گنبد اور انا کے خول میں بند ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ پورا عالم اسلام غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے، ایران کی جانب سے اسرائیل کے بجائے پاکستان کو نشانہ بنانا لمحہ فکریہ ہے۔ ایران کو پاکستانی سرحدوں کے اندر کسی بھی عنوان سے ایسی کارروائیوں کا کوئی حق نہیں۔ یکطرفہ طور پر دہشت گردوں کی موجودی کے عنوان سے کارروائیاں کرنا کھلی بدمعاشی، غنڈا گردی ہے۔ ایسی کارروائیوں سے پہلے ہی بے امنی سے دوچار خطے کا امن اور استحکام مزید خطرے سے دوچار ہوگا اور اس کی تمام ذمے داری ایران کی عاقبت نا اندیش سیاسی اور عسکری قیادت پر عائد ہوگی۔
اگرچہ اگلے دو دن بعد پاکستان کی جوابی کارروائی سے ایران کا پھرا ہوا دماغ اپنی جگہ پر آگیا ہے، تاہم ایران کے حملے کے بعد بھارت کو بلاوجہ کی خوش فہمیاں لگنا شروع ہوگئی تھیں اور بھارتی حکام خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے، جو پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی کے بعد نوحوں میں بدل گئے ہیں۔
ایران نے اس حملے سے حاصل کچھ نہیں کیا، کھویا بہت کچھ ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ایران کے متعلق کوئی اچھا تاثر نہیں ہے، پاکستانی جانتے ہیں کہ کلبھوشن یادو ایرانی دستاویزات کے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا، اسی طرح بلوچ شر پسند کمانڈر گلزار امام شمبے بھی ماضی میں اعتراف کر چکا ہے کہ اسے ایرانی ایجنسیوں نے اپنے سیف ہاوس میں پناہ دے رکھی تھی۔
ایران کو در اصل سی پیک کے نتیجے میں گوادر کے فعال ہونے سے مسئلہ ہے، اسے یہ خوف ستا رہا ہے کہ گوادر فعال اور فنکشنل ہوگیا تو اس کی چاہ بہار پورٹ ڈی ویلیو ہوجائے گی، چنانچہ وہ اس کو ناکام بنانے کیلئے در پردہ ایسی کئی سازشیں رچنے میں مصروف ہے، جو بہرحال پاکستانیوں کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہیں۔
بہرکیف پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی سے ایرانی مہم جو قائدین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاس لحاظ رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان کو بھی عراق اور شام کی طرح اپنی کالونی سمجھ کر جب چاہیں کارروائیاں کریں۔