قومی کرکٹ ٹیم کوحکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہمیشہ سے ناقابل یقین رہی ہے، پاکستان کے شاہین دنیا کے کسی بھی میدان میں غیر یقینی صورتحال کوفتح بدلنے اور ہاتھ آئی جیت کو مخالف کی جھولی میں ڈالنے کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

اگر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کا جائزہ لیا جائے تو جہاں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہیں پلینگ الیون پر بھی سوالات نے جنم لیا۔

شاداب خان جیسے ناتجربہ کار کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ ہونے کے باوجود ٹیم کا حصہ بنایا گیا جبکہ اس کے برعکس ڈومیسٹک کرکٹ میں انتہائی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے فواد عالم کو ٹیم کا حصہ نہ بنانے پرمبصرین نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور آگے چل کر کپتان اور ٹیم مینجمنٹ کا یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔

انگلستان کی سرزمین پر قومی ٹیم میں دو لیگ اسپنرز کی شمولیت بھی ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا ، اس کے برعکس مخالف انگلش ٹیم نے چار تیز  گیند بازوں کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور قومی ٹیم کی انتظامیہ نے پی ایس ایل میں محض چند چوکےچھکے لگانے کی بنیاد پر انتہائی مشکل کنڈیشنز میں شاداب خان جیسے ناتجربہ کار آدھے آل راؤنڈر کو کھلاکر مخالف کو جیت کی راہ دکھائی۔

قومی کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ کو اب قوم کو یہ بتانا ہوگا کہ اگریسو کرکٹ آخر ہوتی کیا ہے، رن آؤٹ اور جلدی بازی میں وکٹس گنوانے کی روش ٹیسٹ کرکٹ میں زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔

اگریسو کرکٹ کا مطلب اسٹرائیک بدلنا ہے یا جلدی بازی میں الٹے سیدھے شارٹس کھیل کر وکٹس گنوانا، یہ بات آج تک پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کو سمجھ نہیں آسکی، آ پ کا رن ریٹ اور اسٹرائیک اچھا ہونا چاہیے لیکن قومی ٹیم کے کھلاڑی قسمت کی دیوی کے منتظر رہتی ہیں کہ وہ مہربان ہو تو ایک باری اچھا کھیل لیتے ہیں اور دوسری باری پر تو چل میں آیا کی پالیسی پر چل کر پویلین لوٹنے کی جلدی میں رہتے ہیں۔

انگلینڈ کو 277 رنز کا حتمی ہدف دینے کے بعد 119 رنز پر پانچ کھلاڑی آؤٹ کرنے کے باوجود جوز بٹلر اور کرس ووکس نے اٹیکنگ کرکٹ کو ترجیح دی اور اسپنرز کو آزادی کیساتھ چوکے لگاتے رہے ہیں انتہائی دانشمند کپتان اظہر علی نے اسپنرز کی جگہ فاسٹ باؤلرز کو آزمانے کی غلطی نہیں کیا مبادا وہ دونوں کھلاڑی آؤٹ نہ ہوجائیں اور اس جوڑی نے پاکستان کے ہاتھوں سے فتح چھین لی لیکن پاکستان کے کپتان ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتاؤں نے ایسے شخص کے ہاتھ میں قیادت کی باگ ڈور سونپی ہےجس کی گزشتہ 10 سے 12 میچوں کی اوسط 11 سے 12 رنز فی اننگ ہے اور ایسے شخص کو ٹیسٹ میں قیادت سونپ دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔

13 اگست کو ہونیوالے دوسرے ٹیسٹ میچ کیلئے پاکستان کو حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے میچ میں ہونیوالے تجربات نے قومی ٹیم کو ایک اور رسوائی کے سواء کچھ نہیں دیا اور دوسرے میچ میں بھی اگر یہی ٹیم کھلائی جاتی ہے اور تو قومی ٹیم کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ کو دوسرے میچ کیلئے ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلے میچ ہونیوالی غلطیاں درست کرکے فوری فیصلے کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی اور 11 کے 11 کھلاڑیوں کو اپنی بہترین پرفارمنس دینا ہوگی کیونکہ کسی ایک بلے باز یا ایک گیند باز پر انحصار کرنا بیوقوفی ہے جب تک پوری ٹیم ایک جان ہوکر میدان میں نہیں اترے گی اور ہر کھلاڑی اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کریگا تب تک انگلستان تو کیا کہیں بھی فتح کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

Related Posts