معاشی قوت بننے کا خواب

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈیفالٹ کے خدشات سے دوچار اسلامی جمہوریہ پاکستان معاشی قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، جیسا کہ ہمارے وفاقی وزیرِخزانہ کی پوسٹ بجٹ تقریر سے پتہ چلتا ہے، تاہم اس خواب پر من حیث القوم ہمیں تنقید کی بجائے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

اپنی پوسٹ بجٹ تقریر میں ہفتے کو وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 2 ہزار 963 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ وفاق کے مجموعی اخراجات 11 ہزار 463 ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ آئندہ برس 3.5 فیصد جی ڈی پی گروتھ ہوگی۔بجٹ میں الیکشن کیلئے 48ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر ریونیو کا ہدف 9ہزار200 ارب روپے ہے۔ حکومتی اخراجات 14 ہزار 400 ارب روپے ہیں۔ وفاقی بجٹ خسارہ 5 ہزار 773 ارب روپے ہے۔ پنشن کی مد میں 761 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو معاشی قوت بنائیں گے۔ زرعی شعبے کی ترقی حکومت کی ترجیح ہے۔ اگلے سال کا خام ریونیو 12 ہزار 163ارب روپے ہوگا۔ قرض کی مد میں بجٹ میں بڑی رقم رکھی جائے گی۔ آئی ٹی اور سائنس سیکٹر کیلئے 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

مزید تفصیلات کیلئے وزیرِ خزانہ کی پوسٹ بجٹ تقریر پڑھی، سنی اور دیکھی بھی جاسکتی ہے جو گزشتہ روز نشرہوئی۔ اگر پاکستان واقعی معاشی قوت بننا چاہے تو اس کیلئے ہمیں اقتصادی استحکام، ساختی چیلنجز، انسانی سرمایہ، تعلیم، قدرتی وسائل اور عالمی تجارت سمیت دیگر اہم معاشی نکات کا خیال رکھنا ہوگا۔

 اگر کوئی ملک پہلے ہی اہم معاشی عدم استحکام کا سامنا کر رہا ہے، جیسے کہ عوامی قرضوں کی بلند سطح، افراط زر، یا مالیاتی خسارے تو اقتصادی طاقت بننے کا خواب غیر حقیقی معلوم ہو سکتا ہے۔ معاشی غلبہ حاصل کرنے سے پہلے ان بنیادی معاشی مسائل کو حل کرنا اور استحکام کا حصول بہت ضروری ہے۔

 ساختی چیلنجز مثلاً کمزور گورننس سسٹم، ناکافی انفراسٹرکچر، بدعنوانی، یا سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتے اور معاشی طاقت بننے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ 

تعلیم اور ہنر کی ترقی کے ذریعے افرادی قوت میں سرمایہ کاری معاشی ترقی اور مسابقت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر کسی ملک میں تعلیم یافتہ افرادی قوت کی کمی ہو تو اسے پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول اور پہلے سے مستحکم اقتصادی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

 قدرتی وسائل کی دستیابی اور انتظام ملک کی اقتصادی صلاحیت کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ تاہم مکمل طور پر قدرتی وسائل پر انحصار کرنا خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ معیشت کو اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیتا ہے۔ دیگر شعبوں میں تنوع مثلاً ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ، یا خدمات، طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

اقتصادی طاقت اکثر مضبوط عالمی تجارتی تعلقات اور مسابقت سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایک معاشی طاقت بننے کا ارادہ رکھنے والے ملک کو عالمی منڈیوں میں کامیابی کے ساتھ گھسنے کے لیے ایک اچھی طرح سے طے شدہ تجارتی پالیسی، سازگار تجارتی معاہدے قائم کرنے اور کلیدی صنعتوں میں مسابقتی فائدہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 پاکستان کو درپیش ڈیفالٹ کے خطرے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو قرض کے اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ قرض کی پائیداری کا انتظام کرنے اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے محتاط مالی انتظام، مؤثر قرض کی تنظیم نو، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ طویل مدتی اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ان خطرات سے نمٹنا بہت ضروری ہے تاکہ معاشی قوت بننے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی راہیں ہموار کی جاسکیں۔

Related Posts