پاکستان اور بھارت کی دشمنی: عوامی مسائل یا حکومتی ترجیحات؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے اور یہی مسئلہ مختلف ممالک کو ترقی سے ہمیشہ دور رکھتا ہے۔ جب زمین کو سرحدوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو یہ سوچتے ہوئے کہ ہم دنیا کے جس حصے میں ہیں، اس کے لوگوں کیلئے زندگی کی آسائش اور آرام کیلئے کام کریں گے۔

مگر یہ کبھی ہوا نہیں بلکہ ایک سے دوسرے ملک کے عوام کیلئے مختلف سرحدیں مشکلات کی تخلیق کا باعث بن جایا کرتی ہیں، کچھ ایسی ہی مشکلات کے باعث ہمیشہ عوام پستے ہوئے نظر آئی اور حکومتیں عوام سے زیادہ سرحدوں کی اس زمین کے بارے میں سوچتی رہیں جس کی قیمت انسانی خون سے ادا کی گئی۔

ہتھیاروں کی نمائش اور ان کی خریدوفروخت پر اتنا پیسہ لگادیا گیا کہ وہاں کی عوام ہمیشہ سے قرضوں پر رہی اور مشکلات روز بروز بڑھتی چلی گئیں۔ ان سرحدوں کی جنگ سے کسی بھی ملک کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا، تو پھر آج ہم ان سرحدوں پر کشیدگی کو کم کیوں نہیں کرتے؟

بھارت اور پاکستان جب سے بنے ہیں، دونوں ممالک بے تحاشا ہتھیار خریدتے اور انسانوں کی جانیں دیتے رہے ہیں تاہم یہ جنگ کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچی اور یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خوف کا شکار ہو کر ہمیشہ جنگ کی تیاری کرتے نظر آئے ہیں۔

اگر ہم ان دونوں ممالک کے عوام کے متلعق بات کریں تو ہمیشہ سے چاہتے ہیں کہ غربت ختم ہو کیونکہ غربت نے ان دونوں ممالک کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ بھارت، پاکستان نیو کلیئر بم بنا چکے ہیں اور چاند پر بھی جا چکے ہیں لیکن ان کے عوام آج تک پریشانیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

آج  ہماری نوجوان نسل تعلیم یافتہ اور باشعور ہے، ان کو چاہئے کہ اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ سرحدوں کی کشیدگی کو ختم کرتے ہوئے دونوں ممالک کو اپنی ثقافت اور کاروباری روابط کو بہتر کریں۔ پاکستان اور ہندوستان اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو دونوں ممالک کا فائدہ ہوسکتا ہے۔

ہم بے تحاشا پیسے جو جدید ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں، انہیں ہم اپنی عوام پر لگا سکتے ہیں۔ چین کی کامیابی کو مدنظر رکھیں تو آج تک چین ہمیشہ اپنی معیشت کو بہتر کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اگر وہ بھی ہماری طرح سرحدوں اور دشمنوں سے لڑتے رہتے تو کبھی ترقی نہ کرپاتے۔

آج ہم جس جگہ پہنچے ہیں، اس کی وجہ ہماری سرحدوں پر نفرتوں کے بوئے گئے بیج ہیں، اس نفرت نے ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اگر پاکستان اور ہندوستان مل کر اپنی تمام سرحدوں پر دشمنیوں کو بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کو اپنا شعار بنائیں تو بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

جب ایسٹ جرمنی ویسٹ جرمنی ایک ہوسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہماری لڑائی کبھی ذاتی نہیں رہی ہے۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی ہمیں لڑوایا گیا، ہماری جنگ ان لوگوں نے کروائی جو اپنے مفاد کیلئے دونوں ممالک میں کام کرتے رہے ہیں۔

اب ان دونوں ممالک کو سوچنا ہوگا کہ سرحدیں زیادہ ضروری ہیں یا پھر انسان؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دونوں ممالک انسانیت کے بارے میں ہمیشہ سے ہی بات کرتے آئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ بھی مل کر انسانیت کی باتوں پر عمل کرتے رہے ہیں۔انسانیت کی باتوں پر عملدرآمد کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں انسانی حقوق کا بول بالا ہوسکے۔

سیاست دانوں نے انسانوں کو ہمیشہ یا تو مذہب کے نام پر یا برادری کے نام پر آپس میں لڑوایا ہے اور جھوٹی انا کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو اکسایا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر انہی سیاست دانوں نے ہمیشہ حکمرانی کی۔

اگر ہمارے سیاست دان اور ہندوستان کے سیاست دان عوام کو مدنظر رکھیں تو وہ ضرور برسوں کی دشمنی کو ختم کرکے سارے مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ آج اگر ہم چاہیں تو ان سرحدوں پر جو خونریزی ہورہی ہے۔ اسے روکا جاسکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے حکمرانوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ ہم کسی بھی سرحد سے زیادہ انسانی حقوق اور انسان سے محبت کرتے ہیں۔

جب انسان سے محبت کرنے لگیں تو یہ سرحدوں کے فاصلے ختم ہوجائیں گے اور پاکستان اور ہندوستان اپنے ہمسایہ ممالک چین، افغانستان اور روس وغیرہ سے مل کر دنیا سے کافی حد تک غربت ختم کرسکتے ہیں۔ صرف ایک مثبت سوچ کی ضرورت ہے اور یہ سوچ اگر حکمرانوں میں آگئی تو نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان، افغانستان، ایران، روس، چین اور دیگر ممالک خوشحال نظر آئیں گے۔
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے یا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

Related Posts