وزیرِ اعظم عمران خان9 نومبر کو بابا گُرو نانک کے 550 ویں یومِ پیدایش کے موقعے پر کرتار پور راہ داری کا افتتاح کریں گے جس کے تمام انتظامات مکمل کیے جا چکے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور منصوبہ ریکارڈ وقت میں مکمل کرنے پرحکومت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرتارپور سکھ یاتریوں کے استقبال کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
وزیراعظم نے کرتارپور منصوبے کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کراتے ہوئے کہا ہے کہ میں گرو نانک جی کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات کے لئے ریکارڈ مدت میں کرتار پور منصوبہ مکمل کرنے پراپنی حکومت کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کرتار پور راہداری منصوبے کی افتتاحی تقریب 9 نومبر کو ہوگی جس میں میں بھارت سے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو اور سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سمیت اہم شخصیات شریک ہوں گی۔
گورودوارہ دربار صاحب کرتار پور ،بابا گرونانک کی آخری آرام گاہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، منصوبے کی تکمیل سے انڈیا کے سکھ یاتری بغیر ویزے پاکستان میں موجود اپنے چند مقدس مقامات کا دورہ کر سکیں گے تاہم سفر کے لیے درست پاسپورٹ اور الیکٹرانک سفری اجازت نامہ (ای ٹی اے) ہونا ضروری ہے۔
کرتا پورراہداری پورے سال کھلی رہے گی، صرف ان چھٹی کے دنوں کے علاوہ جو پہلے سے بتا دیے جائیں گے،بھارتی حکام پاکستان کو یاتریوں کی فہرست 10 دن پہلے فراہم کریں گے،سفر سے پہلے یاتریوں کی تصدیق کی جائے گی جس میں ای ٹی اے شامل ہے۔
سکھ برداری نے گذشتہ کئی سالوں سے اس راہداری کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ دونوں ملکوں کی پچھلی حکومتوں نے اس سلسلے میں سنہ 1998، 2004 اور 2008 میں ابتدائی بات چیت کی تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔
موجودہ گرودوارے کو سنہ 1925 میں تعمیر کیا گیا جب اس کی اصل حالت سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھی۔سنہ 2004 میں اسے پاکستان کی طرف نے بحال کیا گیا۔یہ گرودوارہ اس لیے تعمیر کیا گیا کیونکہ گورو نانک نے اپنی زندگی کے 18 برس کے دوران اس مقام پر قیام کیا تھا۔یہ سکھوں کے لیے دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ سکھوں کے لیے سب سے مقدس گرودوارہ جنم استھان ہے۔
کرتار پورراہداری معاہدے اور منصوبے کے انتہائی دُو ر رس اور ہمہ جہت نتائج توسامنے آئیں گے ہی ،پراس حوالے سے کچھ خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور رہیں گے،دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی نوعیت سے کون واقف نہیں، بالخصوص بھارت کے جارحانہ عزائم اور خطّے میں بالادستی قائم کرنےکی ہمیشہ سے جوایک خواہش رہی ہے اور جسے پورا کرنے کے لیے وہ اپنے پڑوسی ملکوں کو اپنا دستِ نگر رکھنے اور علاقے کی تھانے داری حاصل کرنے کے مواقع کی تلا ش ہی میں نہیں رہتا بلکہ خطر ناک نوعیت کی حد تک مواقع بھی پیدا کرلیتا ہے۔
تویہاں یہ بات انتہائی اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ کرتار پور را ہ داری کا معاہدہ اور افتتاح ایک ایسے موقعے پر ہو رہا ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی کی انتہا پر ہیں ایسے میں پاکستان کی جانب سے کرتا پور منصوبے کو مقررہ مدت میں مکمل کرنا بھارت کیلئے ایک خیر سگالی کا ایک واضع پیغام ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت بھی پاکستان کے اس دوستی کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر آئے تاکہ کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔