دورۂ عرب امارات، بھارتی وزیرِ خارجہ کی آمد اور پاک بھارت بیک ڈور روابط کی افواہیں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے وطن پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین دہائیوں پر محیط مذہبی، سفارتی اور ثقافتی تعلقات موجود ہیں اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی آج کل دوبئی میں ہیں جہاں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر بھی آج پہنچ رہے ہیں۔

بھارتی وزیرِ خارجہ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی پاک بھارت بیک ڈور روابط کی افواہیں زور پکڑ گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت نے بے بنیاد قرار دے دیا۔ آئیے پاک عرب امارات تعلقات اور پاک بھارت ممکنہ بیک ڈور روابط سے متعلق حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔

 پاکستان اور متحدہ عرب امارات تعلقات

مملکتِ خداداد پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے مابین دوستی دہائیوں پر محیط اور برسوں پرانی ہے جس کیلئے یو اے ای کے بانی عزت مآب شیخ زید بن سلطان النہیان مرحوم کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔

عزت مآب شیخ زید بن سلطان النہیان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا کرتے تھے۔ متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی کا جو سفر شیخ زید بن سلطان النہیان نے شروع کیا تھا، وہ آج تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ایک لق و دق صحراء نخلستان میں تبدیل ہوگیا۔

متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی کیلئے پاکستانی محنت کش اور ماہرین اپنا خون پسینہ بہاتے رہے جو کم و بیش 50 برس یا اس سے زائد عرصے پر محیط سفر ہے۔ جب 1971ء میں متحدہ عرب امارات کا قیام عمل میں لایا گیا تو پاکستان نے سب سے پہلے اسے تسلیم کیا۔

آج تک متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے مابین دوستی کا یہ رشتہ بے حد خلوص اور دو طرفہ تعاون کی بنیاد پر قائم ہے۔ دونوں ممالک میں تاریخی، ثقافتی اور معاشی دو طرفہ تعاون کی موجودگی دو طرفہ تعلقات کی پختگی کا ثبوت ہے۔

گزشتہ برس شیخ محمد بن زید اسلام آباد تشریف لائے تو وزیرِ اعظم عمران خان ان کی گاڑی بذاتِ خود ڈرائیو کرکے لے گئے اور عہدہ سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی عمران خان یو اے ای کا دورہ کرچکے تھے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات اور ایک دوسرے کو دی جانے والی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

کورونا کا خوف اور ویزوں پر پابندی 

دنیا بھر میں کورونا وائرس نے دہشت پھیلائی تو متحدہ عرب امارات بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ یو اے ای نے گزشتہ برس 18 نومبر کے روز پاکستان سمیت 10 ممالک کے ویزوں پر پابندی عائد کردی۔

جن ممالک پر یہ پابندی عائد کی گئی ان میں پاکستان کے علاوہ ترکی، ایران، شام، یمن، صومالیہ، عراق، کینیا، لیبیا اور افغانستان شامل تھے۔ تمام ائیر لائنز کو فیصلے سے آگاہ کردیا گیا۔ 

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور متحدہ عرب امارات 

گزشتہ روز وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی متحدہ عرب امارات کے 3 روزہ سرکاری دورے کیلئے دوبئی پہنچے جہاں عالمی ائیرپورٹ پر اماراتی وزارتِ خارجہ کے سینئر حکام اور یو اے ای میں پاکستانی سفیر افضال محمود نے انہیں خوش آمدید کہا۔

بعد ازاں وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے اعزاز میں پاکستان بزنس کونسل دوبئی نے افطار ڈنر کا اہتمام کیا۔ وزیرِ خارجہ نے کاروباری شخصیات کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم دنیا کی توجہ پاکستان میں کثیر کاروباری مواقع کی طرف مبذول کروا رہے ہیں۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باوجود معاشی سفارتکاری مثبت نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ کثیر الجہتی اور تجارتی تعلقات ہر گزرتے روز کے ساتھ بہتر ہورہے ہیں۔ 

بھارتی وزیرِ خارجہ کی آمد اور تردیدی بیانات 

ہمسایہ ملک بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر بھی آج ابوظہبی پہنچیں گے اور اس خبر کی نشرواشاعت کے ساتھ ہی میڈیا پر افواہوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ پاکستان اور بھارت بیک ڈور تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

دونوں ممالک نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی متوقع ملاقات سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ آج صرف 1 روز کیلئے یو اے ای گئے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی کا دورۂ عرب امارات 3 روز پر مشتمل ہے۔

ہندوستان ٹائمز نے بھی ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر یو اے ای صرف متحدہ عرب امارات کی قیادت سے ملاقات کیلئے گئے ہیں جہاں دو طرفہ تعلقات، معاشی و اقتصادی تعاون اور کورونا وائرس پر گفت و شنید متوقع ہے۔ 

بیک ڈور روابط یا کچھ اور؟

ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بیک ڈور روابط جاری ہوں، تاہم ماضی میں بھارت نے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے مابین روابط میں ولن کا کردار ادا کرتے ہوئے یو اے ای میں برسرِ روزگار پاکستانیوں کا روزگار چھین لیا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ برس بھارتی وزیرِ خارجہ اور ان کے چیف آف آرمی اسٹاف یکے بعد دیگرے متحدہ عرب امارات پہنچے جس کے بعد یو اے ای میں خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں کو روزگار کے مسائل پیش آنا شروع ہو گئے۔

دوسری جانب بھارتی شہریوں کو کاروبار اور روزگار میں بہتری و ترقی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ بھارتی وزیرِ خارجہ پاکستان سے بیک ڈور روابط کی بجائے آج بھی یو اے ای اور پاکستان کے تعلقات کمزور کرنے کے درپے رہیں گے۔

بھارت اور پاکستان روایتی حریف ہیں، یہ حقیقت کسی صورت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کو سیاسی اور سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا تدارک کیا جاسکے۔