تحریک لبیک پر پابندی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پچھلے تین دن تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کے احتجاج کے باعث ملک بھر میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا اور تحریک لبیک کے کارکنوں کی جانب سے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے اور جلاؤگھیراؤ وپرتشدد واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹی ایل پی سیاسی میدان میں ایک نئی جماعت ہے اور اس نے 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لیااور دو سیٹیں حاصل کیں تاہم ووٹوں کی تعداد کے حساب سے پانچویں بڑی جماعت بن گئی۔ اس نے مذہبی طبقات سے اپیل کی کہ وہ توہین رسالت کے قوانین اور ختم نبوت ﷺکے محافظ ہونے کا اعلان کریںتاہم تشدد اور سڑکوں کی بندش کے بعدحکومت اس جماعت پر پابندی لگانے پر مجبور ہوئی۔

ابھی پچھلے ہفتے ہی تحریک لبیک کے ساتھ اتفاق رائے ہوا تھا کہ گستاخانہ خاکوں کے جواب میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ پچھلی حکومت نے بھی ان کے خلاف فیصلہ کن فیصلہ کارروائی سے گریز کیا اور ان کیساتھ سختی سے نمٹنے کے بجائے نرم رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے ساتھ مقابلہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ بالآخر ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے ہرحربہ استعمال کرتی ہے۔

ٹی ایل پی کی سربراہی بنیاد پرست عالم خادم حسین رضوی نے رکھی جو لوگوں کو راغب کرنے کیلئے اشتعال انگیز تقاریر کرتے تھے ، تحریک لبیک نے 2017 میں فیض آباد کے قریب دھرنا دیا جس میں جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد کو کئی دنوں تک یرغمال بنا رکھا ۔

پچھلے سال خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ایسا لگتا تھا کہ یہ جماعت روایتی شدت پسندی کا رویہ ترک کردیگی لیکن خادم حسین رضوی کے بیٹے سعد رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک نے اپنا تسلط ظاہر کرنے کی کوشش کی اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور ان کے سفیرکو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔

ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ جن جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی وہ زیادہ پرتشدد ہوگئیں اور انہوں نے پہلے سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ فرقہ وارانہ تنظیموں ، دہشت گرد گروہوں اور قوم پرست گروہوں کے ساتھ یہ بات واضح ہوچکی ہے۔

ملک میں 80 سے زیادہ تنظیمیں ہیں جن پر پابندی عائد ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پارٹی پر صرف پابندی عائد کرنے کی بجائے انکی قیادت اور وسائل کے خلاف سخت کارروائی کرے اورحکومت کے ٹی ایل پی پرپابندی کے فیصلے سے سخت ردعمل سامنے آنے کا خدشہ ہے جس کے لئے حکومت کوتیار رہنا چاہئے۔

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی دہشت گردی کی مالی اعانت کی فہرست میں ایک اہم موڑ پر ہے اور پرتشدد مظاہرے پاکستان کو مزید مشکلات میں ڈال سکتے ہیں اس لئے حکومت کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے تحریک لبیک جیسی تنظیموں کی پست پناہی کے بجائے واضح حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ورنہ ملک میں سلامتی کی صورتحال مزیدخراب ہوسکتی ہے۔

Related Posts