ماہِ آزادی اور ہمارے فرائض

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

زندگی بھر انسان دو جمع دو چار کرتے ہوئے گزار دیتا ہے اور اسے خیال ہی نہیں آتا کہ جس پاک اور بابرکت ذات نے اسے اس دُنیائے رنگ و بو میں بھیجا، اس کا اس خاک کے پتلے کو زمین پر اتارنے کا اپنا ایک مقصد تھا جسے ہم پورا کرنا بھول جاتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ سانس لینے، کھانے پینے اور دن رات ہنسی خوشی دوستوں، ہم نواؤں اور رشتہ داروں کے ہمراہ گزارنے کے علاوہ بھی ہمارے کچھ حقوق اور فرائض ہیں جنہیں ادا اور حاصل کرنے پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔

جس طرح انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے پر توجہ دینی چاہئے، بالکل اسی طریقے سے حقوق کے حصول پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ حقوق و فرائض کا یہ چکر اگر درست طریقے سے نہ چلے تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو پورے نظام کی تباہی و بربادی اور معیشت کی ہر گزرتے روز کے ساتھ دگرگوں ہوتی صورتحال ہمیں آنے والے طوفانوں سے خبردار کرتی ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے اور شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت میں دبا لیتے ہیں۔

بلوچستان کو آج جو صورتحال درپیش ہے، اس کی ذمہ دار پاکستانی حکومت اور دنیا بھر کی بڑی بڑی معیشتوں کی پیسے کیلئے دوڑ تو ضرور ہے جس نے موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کو ہوا دی اور پھر پاکستان سمیت دیگر ممالک میں سیلاب اور طوفانی صورتحال جنم لینے لگی لیکن اس کی ایک اور بھی بڑی وجہ ہے۔

آج کے انسان کو جب بتایا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بہت سے ساحلی شہر جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں، روئے زمین سے قصۂ پارینہ کی طرح مٹ جائیں گے اور سمندروں کا حصہ بن جائیں گے تو بہت سے لوگ یقین نہیں کرتے۔

پھر جب انسان مختلف تحقیقی مواد پڑھتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ خوفناک حقائق ہیں جو آگے چل کر سچ ہوجائیں گے اور ہماری نسلیں بے شمار ایسے جانوروں اور مناظر کو نہیں دیکھ سکیں گی تو اسے بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن ایسے مسائل پر قابو پانے کیلئے اجتماعی ردِ عمل ضروری ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ جن مسائل کا حل نکالنے کیلئے اجتماعی ردِ عمل ضروری ہے، ان پر ہم کیوں توجہ دیں؟ ہونے دو جو ہوتا ہے لیکن یہی وہ سوچ ہے جسے ہمیں من حیث القوم اور عالمِ انسانیت کے ایک نمائندے کے طور پر ختم کرنا چاہئے۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان کے لوگ مغربی معاشروں میں جا کر وہاں تو ٹریفک کے قوانین اور کچرے کو کوڑے دان میں پھینکنے جیسے افعال بڑی تندہی اور فرض شناسی سے سرانجام دیتے نظر آتے ہیں لیکن اگر اپنے ملک میں پہنچیں تو ان تمام تر اصولوں کو دوبارہ پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ ایک فرد ہی ہوتا ہے جو کسی معاشرے کی بنیاد بنتا ہے اور اگر ہم اپنی فرسودہ سوچ بدل دیں اور چھوٹی چھوٹی سی بے احتیاطیوں کو روک کر کم از کم اپنے گھر کی حد تک ہی وسائل کی فضول خرچی، آلودگی کے پھیلاؤ اور پانی کے ضیاع کو روک دیں تو اس سے بڑا انقلاب آسکتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ صرف آپ کے عمل سے پورے ملک میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو، لیکن یہی انقلاب آپ کو دیکھتے ہوئے آپ کے گلی محلے یا شہر میں برپا ہوسکتا ہے جو پورے معاشرے کیلئے ایک زندہ مثال بن جائے گی۔

حب الوطنی صرف یہ نہیں کہ آپ 14 اگست کے روز ہری جھنڈیاں خریدیں اور ان کو لہراتے پھریں، کپڑوں پر اسٹیکر اور دوپٹوں کو ہرے رنگ سے رنگوا کر دوسروں کو دکھاتے پھریں کہ آپ سے بڑا وطن پرست کوئی نہیں ہے بلکہ اصل حب الوطنی اس ملک کی املاک ، وسائل اور زمین سے پیار ہے جو ہم سے فرض شناسی کا تقاضا کرتا ہے۔

اگست ماہِ آزادی ہے یعنی اس مہینے میں ہم نے یہ آزاد وطن حاصل کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ہم وطن اپنے ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی کچھ سوچیں اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ اتحاد و یگانگت ہی ہمیں مستقبل میں پیش آنے والے مسائل سے بچا سکتی ہے۔ 

Related Posts