طاقت سے کسی کی سیاست ختم نہیں کی جاسکتی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

استحکام کی کس قدر اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں جس قدر حل طلب مسائل ہیں، خواہ ان کا تعلق عام آدمی کی روز مرہ زندگی سے ہو، سیاست و معیشت سے ہو یا ملک کے امن و سلامتی سے ہو، ان سب کے حل کی طرف اس وقت ہی ہموار انداز میں بہتر اور ٹھوس قدم اس وقت ہی اٹھائے اور بڑھائے جا سکتے ہیں جب ملک میں سیاسی استحکام کی فضا اور ماحول ہو۔

قدم اٹھانے کیلئے ماحول اور فضا موافق ہوں گے تو بتدریج مسائل کے حل کی سبیل بھی نکالی جاسکتی ہے، ماحول اور فضا موافق اور مساعد نہ ہوں تو نہ صرف یہ کہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں بلکہ صورتحال برقرار رہنے کی صورت میں نت نئے مسائل جنم لے کر حالات کی سنگینی میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے معاملات ارباب اختیار کے ہاتھ سے نکلتے چلے جاتے ہیں۔

اس وقت قومی منظر نامے پر غور کیا جائے تو بد قسمتی سے یہی صورتحال بنی دکھائی دے رہی ہے۔ حالات کا یہ منظر ایک ہی رات میں نہیں بنا ہے، یہ تقریباً ایک عشرے سے جاری سیاسی انتشار، عدم برداشت، باہم جوتم پیزار اور ایک دوسرے کیخلاف بظاہر نہ ختم ہونے والی سیاسی محاذ آرائی کی کمائی اور نتیجہ ہے۔

ایک عشرہ پہلے بھی گو ملک و قوم کے حالات مثالی نہیں تھے، مسائل اس وقت بھی موجود تھے، عوام کو اس وقت بھی مشکلات کے ایک کے بعد ایک دریا کا سامنا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے مقابلے میں ان تمام مسائل اور مشکلات کا حجم کہیں کم تھا۔ اس فرق کی ایک ہی وجہ اور سبب ہے کہ تب سیاسی انتشار اور عدم استحکام اس قدر شدت لیے ہوئے نہیں تھا، جتنی شدت آج موجود ہے اور ہر فریق انا کی چوٹی پر کھڑا دوسرے کو مار گرانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے، جس کا نتیجہ ملک و قوم کے مسائل میں بے پناہ اضافے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔
یہ منطقی امر ہے کہ جن فریقوں کو اپنے اپنے دائرے میں ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنا ہے، ان کی ساری توانائیاں اپنی قومی ذمے داریوں اور فرائض کی انجام دہی کے بجائے ایک دوسرے پرسیاسی غلبہ حاصل کرنے اور مختلف عنوانات سے ایک دوسرے کی مشکیں کسنے کی تگ و دو پر خرچ ہو رہی ہوں تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ ملک کے مسائل اور قوم کی مشکلات میں اضافہ ہو اور حالات سنگین سے سنگین تر رخ اختیار کریں۔

اس کے بجائے اگر تمام ادارے، اسٹیک ہولڈرز اور کھیل کے حصے دار باہم مخاصمت میں الجھنے سے گریز کریں اور ہر ایک اپنے آئینی اور اخلاقی دائرے میں بروئے کار آئے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ محاذآرائی اور سیاسی انتشار میں صرف ہونے والی توانائی اور توجہ ملک و قوم کے مسائل اور معاملات کے حل پر صرف ہوگی، اس طرح مسائل کے حل اور ملک کے معاشی استحکام کی سبیل برآمد ہوگی۔

گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے ملک میں جو تسلسل سے سیاسی انتشار اور خلفشار کی کیفیت قائم ہے، اس تمام عرصے میں اس کے تین فریق اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن رہے ہیں، اس کھیل میں کبھی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن ایک پیج پر تو کبھی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صف میں رہی ہیں اوراس طریق کار سے مخالف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

سیاست کے اسٹیج پر جاری چوہے بلی کے اس کھیل سے ملک و قوم نے اس قدر نقصان اٹھایا ہے کہ ملک کے سر پر اب بھی معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ موجود ہے۔ باہمی سیاسی رقابت، کھینچا تانی اور اکھاڑ پچھاڑ نے ذمے داروں اور ارباب اقتدار کو اپنے اصل فرائض سے اس قدر دور کر دیا ہے کہ اس کے نتیجے میں آج ملک ناکوں قرضوں میں ڈوب چکا ہے۔
ن لیگ کے سینئر رہنما اور تجربہ کار سیاستدان خواجہ آصف نے گزشتہ دن سب کو مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کیلئے مشترکہ لائحہ طے کرنے کی بہت ہی صائب تجویز پیش کی ہے، یہ تجویز ہر محب وطن اور با شعور شہری کے دل کی آواز ہے۔

با شعور شہری باہم محاذ آرائی کی سیاست سے بیزار آچکے ہیں۔ ہر کوئی اب یہی سوچتا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی عاقبت نااندیشانہ مشق بہت ہوچکی، اس کا حاصل سوائے نقصان کے آج تک کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔یہ وقت ہے کہ نئی حکومت کے قیام سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام کے ماحول کے قیام کیلئے ابتدائی قدم اٹھا لیے جائیں، اس کیلئے تمام معتوب و غیر معتوب سیاسی جماعتوں، رہنماوں اور مقتدر اداروں کو دل سے کدورتیں ختم کرنا ہوں گی، دل بڑا کرنا ہوگا، ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنا ہوگا۔

تجربہ یہی بتاتا ہے کہ طاقت اور جبر سے ماضی میں کسی سیاسی جماعت کا وجود ختم کیا جاسکا ہے اور اس مشق سے آئندہ اور اب بھی کسی کو راہ سے نہیں ہٹایا جاسکتا، ہاں ماضی میں بھی اس طرز عمل کے نقصانات کا بار ہمیشہ ملک و قوم کے کندھوں پر ہی آیا، اب بھی نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔

کیا ضیاء کی آمریت کے جبر اور زور زبرستی پاکستان پیپلز پارٹی کا وجود ختم کر سکی؟ یہ بات آج کے منظر نامے میں بھی ہمیں اچھی طرح سوچنی چاہئے۔ اس تمام تر تناظر میں خواجہ آصف کی تجویز قابل تحسین ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام طبقات اس حوالے سے موافق ماحول کے قیام کیلئے کردار ادا کریں، انتشار کے خاتمے سے ہی استحکام آئے گا اور مسائل حل ہوں گے۔

Related Posts