مسئلۂ فلسطین اور عالمِ اسلام کی ذمہ داریاں،او آئی سی کے قیام سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسئلۂ فلسطین اور عالمِ اسلام کی ذمہ داریاں،او آئی سی کے قیام سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟
مسئلۂ فلسطین اور عالمِ اسلام کی ذمہ داریاں،او آئی سی کے قیام سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟

دُنیا بھر میں کم و بیش 50 ممالک ایسے ہیں جہاں 90 فیصد یا اس سے زیادہ آبادی مسلمان ہے جبکہ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا قیام 1969ء میں عمل میں لایا گیا۔

آج مقبوضہ فلسطین کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جہاں مسلمانوں کا قبلۂ اول یعنی مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔ کیا مسئلۂ کشمیر و فلسطین حل کرنا او آئی سی کی ذمہ داری نہیں تھی؟ اس بین الاقوامی تنظیم کے قیام سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟ آئیے ان تمام سوالوں پر غور کرتے ہیں۔

او آئی سی اور رکن ممالک

مشرقِ وسطیٰ، شمالی، مغربی اور جنوبی افریقہ، وسط ایشیاء، جنوب مشرقی ایشیاء، یورپ، برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون کی تنظیم دنیا بھر کے 1 اعشاریہ 8 ارب مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 21 اگست 1969ء کے روز یہودیوں کے مسجدِ اقصیٰ پر حملے کے ردِ عمل کے طور پر اگلے ہی ماہ 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی قائم کر لی گئی تاہم اس تنظیم نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی۔ 

سربراہی اور وزرائے خارجہ اجلاس 

پالیسی سازی کیلئے سب سے اہم اجلاس او آئی سی سربراہی اجلاس کہلاتا ہے جس میں ہر 3 سال بعد رکن ممالک کے سربراہان شریک ہوتے ہیں۔ ہر سال ایک بار او آئی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی منعقد کیا جاتا ہے۔

او آئی سی کا پہلا سربراہی اجلاس مراکش کے شہر رباط میں 1969ء میں ہوا۔ دوسرا پاکستان کے شہر لاہور میں 1974ء میں، تیسرا 1981ء میں سعودی عرب کے شہر مکہ اور طائف میں منعقد ہوا۔

اب تک او آئی سی کے 14 عام اجلاس اور 7 غیر معمولی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جن میں مسلم ممالک کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی، تاہم ہر مسلمان ملک کی طرح پاکستان کو بھی یہ شکوہ ہے کہ مسائل کے حل پر خاطرخواہ پیشرفت ممکن نہیں ہوسکی۔

مسلمان ممالک اور مفادات کا مسئلہ 

جب ہم لفظ مسلمان پر غور کرتے ہیں تو ہمیں مقبوضہ فلسطین، جموں و کشمیر اور برما سمیت جس جگہ مسلمانوں پر ظلم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ او آئی سی اس مسئلے کو ضرور حل کرے گا، لیکن یہ کوئی اتنا آسان معاملہ نہیں ہے۔

آج کے دور میں پاکستان، سعودی عرب اور ترکی سمیت دنیا کے تقریباً ہر مسلم ملک میں خارجہ پالیسی کی بنیاد مذہب یا دین کی بجائے مفادات پر رکھی جاتی ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت مساجد کی تعمیر اور عبادات کی ادائیگی کی بجائے معیشت اور روپے پیسے کو دی جاتی ہے۔

اس لیے دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے مقابلے میں او آئی سی کو سب سے ناکام تنظیم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ قائم تو اسلام کے نام پر ہوئی لیکن مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ اور سربراہانِ مملکت گفتگو کے دوران اولیت مفادات کو دیتے ہیں۔ 

مقبوضہ فلسطین کی صورتحال اور او آئی سی

اسرائیل نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم و بیش 200 افراد شہید ہوچکے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ او آئی سی نے فلسطین کو دھوکہ دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر او آئی سی چیٹ فلسطین آج کا ٹاپ ٹرینڈ ہے جس کے تحت 24 ہزار سے زائد پیغامات ارسال کیے جاچکے ہیں۔ 

متعدد سوشل میڈیا صارفین کا مسلم ممالک اور عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے کیونکہ اس نے مقبوضہ فلسطین کو خون میں نہلا دیا۔ 

سب سے بڑا سوال

ہمارا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ او آئی سی کے مسلمان ممالک اسرائیل اور بھارت کے آگے کیوں بے بس ہیں؟جواب بہت آسان ہے۔ اسرائیل مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور ترکی سمیت متعدد مسلمان ممالک سے سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔

بے شک یہ دو طرفہ تعلقات اسلام کی بجائے مفادات کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں لیکن یہ سب ممالک او آئی سی کے اہم رکن ہیں۔ ایسے میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جو او آئی سی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل یا بھارت کے خلاف فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر ایکشن لے، انہیں خود غور کرنا ہوگا کہ ان کا یہ مطالبہ کس حد تک حق بجانب ہے۔ 

Related Posts