او آئی سی اجلاس اور اپوزیشن

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس سر پر ہے اور تحریکِ عدم اعتماد کے نام پر اپوزیشن اور پی ٹی آئی حکومت کے مابین رسہ کشی جوں کی توں ہے۔ مشترکہ اپوزیشن ملاقات کے بعد چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس روکنے کی دھمکی دے ڈالی۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت اپوزیشن نے بلاول بھٹو کی کال پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے اجلاس نہ روکنے کا عندیہ دے دیا۔ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس 22 مارچ کو ہوگا جبکہ پاکستان او آئی سی کے 48ویں اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

مجموعی طور پر اسلامی تعاون تنظیم میں 57 ممالک شامل ہیں۔ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور مندوبین پیر سے اسلام آباد پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ رواں برس او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کا مرکزی خیال اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے شراکت داری رکھا گیا ہے۔

او آئی سی اجلاس کے دوران افغانستان میں معاشی صورتحال، اسلاموفوبیا کے مقابلے، فلسطینیوں اور کشمیریوں کی حالتِ زار اور کورونا سے تباہ حال عالمی معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھانے پر گفتگو ہوگی۔ بلاول کی اجلاس روکنے کی کال پر حکومت نے شدید ردِ عمل دیا۔

مشترکہ اپوزیشن حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی۔ وزراء کا کہنا تھا کہ او آئی سی اجلاس روکنا ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے، کسی سیاسی رہنما کا نہیں۔  حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے بیانات تبدیل کردئیے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہم او آئی سی کے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کریں گے۔ تحریکِ انصاف سے اختلافات کی پروا کیے بغیر ہم عالمی تقریب میں خلل نہیں ڈالیں گے۔ قبل ازیں لانگ مارچ کی تاریخ بھی 23 مارچ کی بجائے الگ دن پر رکھ لی گئی۔

اگرچہ او آئی سی پر اپنے وعدے پورا نہ کرنے، آپٹکس میں نقب لگانے اور دیگر الزامات لگائے گئے تاہم مجموعی طور پر اسلامی تعاون تنظیم نے گزشتہ برسوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں جس پر رکن ممالک بجا طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں نے او آئی سی تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی کے محدود سیاسی و سفارتی ذرائع کو سمجھتے ہوئے حقائق ملحوظِ خاطر رکھے جائیں۔

ایک طرف اپوزیشن چاہتی ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کسی طرح کامیاب ہوجائے اور وزیر اعظم عمران خان کی جگہ نیا وزیر اعظم لایا جائے جبکہ دوسری جانب حکومت عمران خان کو ہی وزیر اعظم برقرار رکھنے پر مصر ہے جس پر دونوں جانب سے شدید بیان بازی جاری ہے۔

شوبز شخصیات اور سیاستدانوں سمیت بہت سی مشہورومعروف شخصیات اور عوام الناس کی کثیر تعداد وزیر اعظم اور اپوزیشن کے مابین جاری رسہ کشی پر غور کرنے میں مصروف ہے تاکہ یہ علم ہوسکے کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ 

تمام تر حقائق سے قطعِ نظر یومِ پاکستان کے تاریخی موقعے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کا انعقاد پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔ اس موقعے پر حکومت اور اپوزیشن کو تحریکِ عدم اعتماد اور مخالفت برائے مخالفت ایک طرف رکھ دینی چاہئے تاکہ او آئی سی کے فورم سے عالمی برادری کو مؤثر پیغام دیا جاسکے۔ 

 

Related Posts