قرآن پاک کی بے حرمتی اور او آئی سی کی سست روی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلامو فوبیا اب ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، مغربی ممالک میں مسلمانوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

عید کے روز سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے نے ہر اہل ایمان کے دل کو کرچی کرچی کردیا ہے۔ مغربی دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے لیکن افسوس کہ 57 ممالک پر مشتمل مسلمانوں کا نمائندہ پلیٹ فارم او آئی سی صرف مذمتوں اور بیانات پر اکتفا کرکے ہی ظاہری اور سیاسی اطمینان کربیٹھتے ہیں، اگر امت مسلمہ کے اس پلیٹ فارم نے قانونی سفارت کاری کے تحت قدم نہ اٹھایا تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے نہتے اور بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و تعدی اور جبر و ستم کا سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے اور افسوس کہ بربریت کا یہ سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ مسلم امہ کا پلیٹ فارم او آئی سی کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو ظلم و بربریت کی دلدل سے نکالنے کیلئے سنجیدہ ہے نہ اپنے چارٹر پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔

یقیناً اس میں بین الاقوامی مفادات اور سیاسی مسائل کا عنصر کارفرما ہے جس کی وجہ سے او آئی سی کے کلیدی ممالک کے سربراہان کی عافیت و مغربی ممالک میں ان کے مفادات کو تحفظ مل جاتا ہے۔

گوکہ او آئی سی کے اپنے ہی چارٹر میں فلسطین کا ذکر موجود ہے اور مسلم امہ کو کوئی بھی گزند پہنچنے پر اقدام اٹھانے کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کشمیری اور فلسطینی اپنی جان و مال کا نذرانہ دیتے چلے آرہے ہیں اور او آئی سی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

او آئی سی کا کردار محض نشستاً، گفتاً ، برخاستاً تک محدود ہے۔  اگر کسی مغربی ملک میں ایسا کوئی ظلم و ستم ہوتا تو یورپی یونین پوری قوت سے معاملے پر متحرک ہوکر اپنی طاقت دکھاتی کیونکہ یورپی یونین کو علم ہے کہ بائیکاٹ، پابندیاں اور دیگر اقدامات کیسے کرنے ہیں جن سے اپنی قوم کو مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔

او آئی سی کے پاس بھی تمام تر اختیارات اور قوت موجود ہے کیونکہ او آئی سی کا قیام بھی یورپی یونین اور نیٹو کی طرز پر عمل میں آیا ہے اور او آئی سی کا قیام بھی دیگر علاقائی تنظیموں کی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے۔

عراقی پناہ گزین کی طرف سے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور دنیا کے کئی ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کیلئے اگر ہم اپنے ممالک میں احتجاج کے دوران اپنی املاک کو جلائیں گے تو اس سے دوسروں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

احتجاج کا طریقہ کار یہ ہے جیسا کہ مراکش نے کیا کہ سویڈن کے سفیر کو بلاکر اپنا بوریا بسترگول کرنے کا پیغام دیا اور اپنا سفیر بھی واپس بلاکر سفارتی تعلقات منقطع کرلئے۔

عالمی قوانین میں یہ واضح ہے کہ آپ مذہب کو بنیاد بنا کر نفرت کا پرچار نہیں کرسکتے اور عالمی قوانین کی پابندی ہر ملک پر لازم ہے۔ او آئی سی کو بھی ان قوانین کے نفاذ و عملدرآمد کیلئے دباؤ ڈالنا چاہیے لیکن افسوس کہ او آئی سی نے واقعے پر صرف مذمتی بیان جاری کرکے اپنے ہاتھ جھاڑ لئے ہیں، بقول شاعر:
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں

ہونا تو یہ چاہیے کہ او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل 9 کے مطابق فوری طور پر سربراہانِ مملکت کا ہنگامی اجلاس بلاکر سویڈن کا بائیکاٹ کیا جائے، یہ سب سے آسان طریقہ ہے کیونکہ اگر آپ سویڈن سے تجارت منقطع کرتے ہیں تو سویڈن فوراً گھٹنوں پر آجائے گا اور عالمی قوانین پر عملدرآمد بھی شروع ہو جائے گا۔

 ہونا یہ چاہیے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے سویڈن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بھی قرار داد پیش کی جائے، ممکن ہے کہ سیکورٹی کونسل میں قرار داد کو بااثر ممالک ویٹو کردیں۔

مسلم امہ کے بھاری بھرکم پلیٹ فارم نے اگر اب بھی کوئی اجتماعی فیصلہ نہ کیا تو آگے چل کر مغربی ممالک میں رائٹ ونگ کے سیاستدان مذہبی نفرتوں اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے اپنی سیاست کو بھی چمکانا شروع کریں گے جس سے وہ اپنا ووٹ بینک قائم کرسکیں اور ایسی صورت میں مسلمانوں کیلئے گھیرا مزید تنگ ہو جائے گا۔ اس سے پہلے کہ حالات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں، انہیں متحرک ہوکر فوری قدم اٹھانا ہوگا۔

Related Posts