وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی میں پیش

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی میں پیش
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی میں پیش

کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض اور اپوزیشن کے اراکین نے بدھ کے روز صوبائی اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔

صوبائی وزیر خوراک عبدالرحمن کھیتران نے صوبائی اسمبلی میں تحریک پیش کی۔ 65 اراکین پر مشتمل ایوان میں سے 33 نے اپنے دستخطوں کے ساتھ تحریک اعتماد پیش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سینیٹر ایوب آفریدی کے استعفے نے شوکت ترین کے انتخاب کی راہ ہموار کردی

مسلم لیگ (ن) کا مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان

آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرنے  کے لیے اسمبلی کے 20 فیصد اراکین کے دستخطوں کی ضرورت ہوتی ہے ، تاکہ جب بحث کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے تو یہ ثابت ہوجائے کہ آدھے ارکان اس کے حق میں ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے نقاط پڑھتے ہوئے صوبائی وزیر خوراک عبدالرحمن کھیتران کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کے تین سالہ دور میں سرکاری اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی جبکہ بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ جام کمال نے بغیر مشاورت کے اہم صوبائی معاملات کو سنبھالا جس کی وجہ سے “ناقابل تلافی نقصان” ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازوں نے وزیراعلیٰ کو ہونے والے نقصان کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

صوبائی وزیر خوراک کا کہنا تھا کہ صوبے میں بیوروکریٹس ، ڈاکٹروں ، طلباء اور زمینداروں سمیت بہت سے لوگ حکومت کی ’’ خراب حکمرانی ‘‘ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ جام کمال علیانی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

عبدالرحمان کھیتران نے اپنے پانچ “لاپتہ” ارکان پارلیمنٹ کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ جام کمال کی خیر خواہی چاہتے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیں۔

Related Posts