امریکا اپنی ڈوبتی ساکھ اور بتدریج ناکامی چاہے وہ ایران کے حوالے سے ہو، چاہے افغانستان کے حوالے سے ہویا عراق یا شام کے حوالے سے ہویالیبیاکے حوالے سے ہواس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اس وقت یہ تاثر ابھررہا ہے کہ کیا امریکا خطے سے خود کو الگ سمجھے لیکن یہ بھی واضح ہے کہ امریکا ایک طرف تائیوان پر اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف اپنی عسکری قوت کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے اور یوکرین میں دباؤ بڑھانا بھی مقصود ہے لیکن اس وقت اگرامریکا کے مد مقابل قوتوں کا احاطہ کیا جائے تو چین اور روس کو امریکا پر کچھ اعتبار سے سبقت حاصل ہے۔
روس امریکا کے مقابلے میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔امریکا کی اس خطے میں موجودگی کی بات کی جائے تو اسرائیل کی شراکت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اسرائیل کو جو کردار دیا جارہا ہے اس میں امریکا کی مرضی و منشاء پوری طرح شامل ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور تغیرات اتنی تیزی سے بڑھنا بدلنا شروع ہوگئے ہیں کہ عام تجزیہ کار اور عام ممالک یومیہ بنیادوں پر پالیسیوں کا جائزہ اورترجیحات کو ایڈجسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ایک طرف اگر دیکھا جائے تو یوکرین پر امریکا اور نیٹو فورسز کا دباؤ بڑھ رہا ہے تاکہ روس کا تسلط اور اثر و رسوخ کم یا ختم کیا جاسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس یوکرین سے ہاتھ اس لئے نہیں اٹھاسکتا کیونکہ اگر روس یوکرین سے واپس جاتا ہے تو نیٹو فورسز وہاں اپنے میزائل نصب کردیں گی اور مملکت روس کیلئے اس سے خطرات میں اضافہ ہوجائیگا۔
دوسری طرف امریکا تائیوان میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ تائیوان کو مضبوط کرکے چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے ارادہ کوپایہ تکمیل تک پہنچاسکے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ امریکا نے حال ہی میں ایک عسکری معاہدہ جو کہ ناصرف دوسرو ں کیلئے خطرات کا باعث ہے بلکہ ایک لحاظ سے پیچیدہ اور خطرے کی گھنٹی بھی ہے ۔چین کے کردار کو کم کرنے کیلئے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ کے عسکری معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ علاقے کونیوکلیئر ہتھیاروں کا پھیلاؤ یعنی نیوکلیئر سب میرین، نیوکلیئر جہازاور نیوکلیئر آلات سے لیس کیا جائے۔
ان حالات میں چین کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچے گا اور چین کو بھی مقابلے کیلئے اپنی قوت میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو حملے یا عسکری مہم جوئی کو ناکام بناسکے۔اسی سلسلے کی ایک معاون کڑی یہ بھی ہے کہ کواڈجس میں بھارت بھی شامل ہے اور اس خطے کے دیگر ممالک بھی معاہدے کا حصہ ہیں جسے بظاہر تو تجارت کا نام دیا گیا ہے لیکن بالآخر یہ اتحاد عسکری مہم جوئی کیلئے معاون ثابت ہوگااوراس کو عسکری چال بھی کہا جاسکتا ہے۔
معاملے کو دیکھا جائے تو اس کا ایک اور رخ بھی بنتا ہے کہ ایران کے حوالے سے امریکا جو الزام تراشی کررہا ہے کہ خطے میں حال ہی میں ایران نے ایک ڈرون مار گرایا ہے اور امریکا کا الزام ہے کہ ایران اپنی پوزیشن کو مستحکم کررہا ہے تاکہ خطے میں باقی ممالک کو وقت آنے پر ہدف بنایا جاسکے اور حال ہی میں ایران کے ایک آئل ٹینکر پر پانچ کشتیوں نے حملہ کیا جس میں تقریباً8 سے 9 افراد جاں بحق بھی ہوئے اور ایران نے اس حملے کیلئے امریکا کی طرف اشارہ کیا ہے۔
موجودہ حالات کے پیش نظر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگرجنیوا میں ہونیوالی نیوکلیئر اکارڈکی میٹنگ ناکام ہوئی تو ایران کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ خطے میں اپنے سلیپر سیلز کو متحرک کرکے مخالفین کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتاہے۔
ایسی صورت میں پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر امریکا چاہ بہار پر حملہ یا قبضے کی کوشش کرے توخطے میں کیا بھونچال بپاہوسکتاہے کیونکہ اس حملے میں گوادر بندرگاہ بھی متاثر ہوسکتی ہے جو کہ سی پیک منصوبوں کا محور ہے اور اگر سی پیک کو نقصان پہنچا تو چین بھی خاموش نہیں رہے گا۔
کسی بھی طرح کی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان دو ہاتھیوں کے درمیان ایک حالات میں پھنس جائیگا کہ ردعمل لازمی ہوگا اور بڑی قوتوں کیخلاف ردعمل کا نقصان بھی ممکن ہے، یہ تمام ممکنات ہیں اورخطے کے معروضی و ماحولیاتی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں تمام ترحالات کیلئے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔