نئے ٹیکس لگانے کی تیاری

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی حکومت رواں ماہ کے آغاز میں ہی بجٹ پیش کرنے کے بعد عوام پر نئے ٹیکس عائد کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے، جبکہ اس ضمن میں 3 دلچسپ واقعات ظہور پذیر ہوئے۔

پہلا واقعہ یہ تھا کہ وزیرِ  خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا، حکومت کی کوشش ہے کہ ہم عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں۔ کوشش ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائیں اور کاروبار میں آسانی پیدا کریں۔ 

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔دوسرا دلچسپ واقعہ یہ رہا کہ اسی روز چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) عاصم احمد نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں 200ارب کے اضافی ٹیکسز لگائے ہیں۔

گزشتہ روز تیسرا دلچسپ واقعہ ہوا جب وزیرِ مملکت برائے خزانہ  عائشہ غوث پاشا نے واضح کیا کہ ایف بی آر کے نئے ٹیکسز جو کہ مجموعی طور پر 223ارب کے ہیں، مہنگائی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوں گے جبکہ کم و بیش 88فیصد ٹیکسز براہِ راست ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں گزشتہ روز بریفنگ دیتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ عالمی مہنگائی میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی مہنگائی کم ہوئی ہے۔

اگر ہم وزیرِ ملکت عائشہ غوث پاشا کے اس دعوے کا جائزہ لیں کہ ٹیکس لگانے سے مہنگائی نہیں ہوگی، تو حالیہ اعدادوشمار پر غور کرنا ضروری ہے جبکہ ٹیکس پالیسیاں مہنگائی پر نمایاں اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب حکومت زیادہ ٹیکس لگاتی ہے تو کاروباری حضرات اور ان ٹیکسز سے براہِ راست متاثر ہونے والے افراد اپنے خام مال یا جس بھی چیز پر ٹیکس عائد کیا جائے، اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچا کر رہتے ہیں، تاکہ ان پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔

نتیجتاً مہنگائی خود بخود بڑھنے لگتی ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے تاہم اس میں ٹیکسز کی نوعیت، مختلف شعبہ جات پر ان کا اطلاق اور مجموعی اقتصادی ماحول بھی اہمیت کا حامل ہے۔

جسے ہم براہِ راست ٹیکس کہتے ہیں، عموماً اس میں انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس شامل ہوتا ہے جو براہِ راست عوام یا پھر کاروبار پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کا اصولی طور پر بالواسطہ ٹیکسز جیسے سیلز ٹیکس یا ایکسائز ڈیوٹی کے مقابلے میں افراطِ زر پر براہِ راست اثر کسی قدر کم ہوتا ہے۔

تاہم افراطِ زر پر ٹیکس کی تبدیلیوں کا مجموعی اثر اقتصادی عوامل کے پیچیدہ تعامل سے متاثر ہوتا ہے جس میں کاروباری رویے، صارفین کے اخراجات کے طور طریقے اور معیشت کی مجموعی حالت شامل ہیں۔

مزید برآں نئے ٹیکسز کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ٹیکس وصولی کی تاریخی کارکردگی اور محصولات میں ایف بی آر کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور ہم کوب جانتے ہیں کہ ٹیکس وصولی کی تاریخی کارکردگی اور محصولات کی کیا صورتحال رہی ہے۔

پی ڈی ایم حکومت نے عوام کو بجٹ میں الگ الگ انداز سے سبز باغ دکھائے، لیکن معاشی ماہرین یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بجٹ الفاظ کے گورکھ دھندے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ مہنگائی تو ہوگی تاہم وزراء چاہتے ہیں کہ اس کا الزام موجودہ حکومت پر عائد نہ کیا جائے۔ 

حقیقت یہ بھی ہے کہ عالمی مہنگائی کے رجحانات، گھریلو اقتصادی ترقی اور حکومت کی مالیاتی پالیسی جیسے عوامل مجموعی طور پر مہنگائی کے عمل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں تاہم یہ دعویٰ کسی طرح بھی حقیقت پر مبنی دکھائی نہیں دیتا کہ نئے ٹیکسز مہنگائی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوں گے۔ 

Related Posts