چند روز قبل لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس منعقد ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر بلاشبہ ایک شاندار خاتون تھیں۔ دیسی لبرلز کے برخلاف ان کی شخصیت کا کل تعارف یہ نہ تھا کہ وہ سخت قسم کی اینٹی اسٹیبلیشمنٹ تھیں۔ بلکہ بطور وکیل وہ ناداروں کی واحد امید تھیں۔
اگر ہم جیسا مذہبی شخص بھی جا کر ان سے کہہ دیتا کہ ہمارے پاس وکیل کو دینے کیلئے فیس نہیں ہے اور ہم پر کیس بن گیا ہے لہٰذا ہماری مدد کیجئے تو وہ نہ ہم اہل مذہب کی داڑھی دیکھ کر مدد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتیں اور نہ ہی ہماری مذہبی فکر ان کے پیش نظر ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر ہم نے جو مختصر سی پوسٹ سوشل میڈیا پر لکھی تھی اس میں یہی کہا تھا کہ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ کبھی خدا نخواستہ کسی کیس کے لپیٹے میں آئے تو سیدھا عاصمہ جہانگیر کے پاس جا کر کہیں گے کہ اس ملا کے پاس وکیل کو دینے کے لئے فیس نہیں ہے، مدد کیجئے اور ہمارا کیس لڑیئے۔ اور ہمیں یقین تھا کہ وہ انکار کسی صورت نہ کرتیں۔ ان کی موت نے ہم سے ہمارا ممکنہ آسرا چھین لیا۔ اسی طرح ان کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ وہ “کلمہ حق” صرف اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف ہی بلند نہ کرتی تھیں بلکہ جب ملک کی مین سٹریم جماعتوں میں سے کوئی جماعت اقتدار میں آکر غیر جمہوری چلن اختیار کرتی تو عاصمہ جہانگیر کوئی رعایت نہ دیتیں بلکہ اس جماعت اور اس کی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیتیں۔ کلمہ حق وہی کہلاتا ہے جو جانبداری سے پاک ہو اور اس کی بنیاد صرف اصولوں پر ہو۔ اس باب میں عاصمہ جہانگیر ہمارے ملک کی آخری روشن مثال تھیں۔
لاہور میں منعقد ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس اس بڑی شخصیت کے نام پر ایک سنگین مذاق تھا۔ اور اس کا حشر بھی وہی ہوا جو کسی سنگین مذاق کا ہوسکتا تھا۔ یہ کانفرنس ایک نہایت متنازع کانفرنس بن کر رہ گئی۔ بنیادی طور پر یہ دیسی لبرلز کے اکٹھ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور اس میں ہوا بھی وہی جو دیسی لبرلز کی شناخت ہے۔ اس میں پیش پیش وہ دیسی لبرلز تھے جو صحافت کے شعبے سے ہیں۔ اور پوری بے شرمی سے مدعی ہیں کہ وہ حق اور سچ ہی بولتے ہیں۔
ہم ان کے سچ بولنے کے قائل ہیں مگر اس صراحت کے ساتھ کہ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو شام پانچ بجے کے بعد، کچھ رات آٹھ بجے کے بعد جبکہ باقی رات 12 بجے کے بعد سچ بولتے ہیں۔ ان اوقات میں ان کی بیگمات نہایت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ الماری میں لاک کر دیتی ہیں تاکہ ان کا سچ کہیں آن لائن نہ چلا جائے۔ یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب ان کا باطن ان کے ظاہر کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ ہم محض بے پرکی نہیں اڑا رہے بلکہ ان میں سے ایک کو کچھ عرصہ قبل ہم رات گیارہ بجے فیس بک پر ذاتی طور پر بھی بھگت چکے ہیں۔ اور ہم تک ان کے اہل خانہ کا یہ موقف بالواسطہ طور پر پہنچ بھی گیا تھا کہ ہم شرمندہ ہیں کہ آج صاحب نے کچھ زیادہ چڑھا لی تھی۔ اور ظاہر ہے اس شب اہل خانہ فون بھی لاک کرنا بھول گئے تھے۔
عاصمہ جہانگیر جیسی غیر معمولی خاتون کے نام سے منعقد کئے گئے ڈرامہ سٹیج پر اس بار ایک کردار منظور پشتین بھی تھا۔ اور یہی سارے تنازع کا سبب بنا۔ اگر آپ غور فرمائیں تو یہ وہی منظور پشتین ہے جو سقوط کابل سے قبل پاکستان کی مین سٹریم پالیٹکس کو گھاس بھی نہ ڈالتا تھا۔ تب یہ افغانستان کی مین سٹریم کا حصہ بنا رہا۔ اور بے شرمی اس درجے کی کہ جس طرح کچھ عرصہ قبل تک ہمارے ہاں پی ٹی آئی کی قیادت جرنیلوں کے ساتھ اپنی تصاویر فخریہ شیئر کیا کرتی تھی بعینہ منظور پشتین کی جماعت کی قیادت افغان جرنیلوں کے ساتھ اپنی تصاویر فخریہ شیئر کیا کرتی تھی۔ گویا ان کی حیثیت افغان جرنیلوں کے یوتھیوں سے زیادہ نہ تھی۔ پھر ایک اہم بات یہ کہ یہ عناصر تقاریر اور ٹویٹس میں اشرف غنی کو اپنا “بابا” بتایا کرتے تھے۔ ان کا عقیدت بھرا ذکر یہ “اشرف غنی بابا” کہہ یا لکھ کر ہی کیا کرتے تھے۔
جب افغانستان سے متعلق دوحہ مذاکرات کا آغاز ہوا تو سقوط کابل سے ڈیڑھ دو برس قبل ہم نے ایک روزنامے میں “اب منظور پشتین کی کفالت کون کرے گا ؟” کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ اور اس میں یہی سوال اٹھایا تھا کہ امریکیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد اشرف غنی تو نہیں رہ پائے گا۔ اس کے نتیجے میں تو منظور پشتین یتیم ہوجائے گا۔ اس صورت میں اس کی کفالت کون کرے گا؟ اور ہمارا لکھا پتھر کی لکیر ثابت ہوا۔ سقوط کابل ہوتے ہی “پشتین واڑا” انتشار کا شکار ہوگیا۔ ان میں سے علی وزیر جیل چلا گیا۔ محسن داوڑ نے پیپلز پارٹی سے ذاتی ساز باز کرلی اور منظور پشتین کچھ عرصے کے لئے منظر سے ہی غائب ہوگیا۔
سال بھر منظور پشتین نے کسمپرسی میں ہی گزارا۔ اور بالآخر پنجاب کے دیسی لبرلز ہی اس کے نئے کفیل بن کر سامنے آگئے۔پنجاب کی انٹیلی جنشیا کا یہ دیسی لبرل ٹولہ معصوم سی شکل بنا کر ہم پختونوں کو باور یہ کراتا ہے کہ دیکھو ہم کتنے اچھے بچے بن گئے ہیں کہ اب چھوٹے صوبوں کی پسی ہوئی آوازوں کو بھی سٹیج فراہم کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔مگر یہ حقیقت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے یہ دیسی لبرلز ہمارے صوبے کے ایک فتنے کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا پر تو یہ احسان تب قرار پائے جب منظور پشتین کی خیبر پختون خوا میں ٹکے کی بھی حیثیت ہو۔ یہ آدمی اور اس کی جماعت تو پورے وزیرستان کی بھی آواز نہیں۔ کیا پنجاب کے دیسی لبرلز ہمیں خیبر پختون خواہ کے دیگر اضلاع میں اس جماعت کا دفتر تک دکھا سکتے ہیں؟ ان کی ضلعی قیادت اور ورکرز دکھا سکتے ہیں؟ پنجاب کے دیسی لبرلز منظور پشتین اور اس کے باقی ساتھیوں کی حمایت صرف اور صرف اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ یہ فوج کو گالیاں دیتے رہے ہیں۔ منافقت کی یہ پستی دیکھئے کہ یہی دیسی لبرلز عمران خان کے جرائم گنواتے ہوئے آج کل سب سے زیادہ زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ خان نے فوج کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی ہے۔ اور دوسری طرف یہی زبان عمران خان سے بھی گھٹیا لیول پر جا کر استعمال کرنے والے علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ یہ دوغلا پن اور منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟ چونکہ عمران خان کے یہ خلاف ہیں تو ان کی نازیبا زبان ان کے ہاں قابل اعتراض ہے اور علی وزیر کی اسی طرح کی زبان کا یہ ذکر تک گول کر جاتے ہیں۔
پنجاب کے دیسی لبرلز یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم اہلیانِ خیبر پختون خوا آپ کے فریب میں آنے والے نہیں۔ آپ کو ہم سے ہمدردی ہوتی تو منظور پشتین نہیں ہمارے صوبے کے حقیقی مسائل پر بات کرتے، ٹاک شوز کرتے، ویلاگز بناتے، کالم لکھتے۔ کیا آپ کو کبھی اس کی توفیق ہوئی؟ اب یہ نہ کہہ بیٹھئے گا کہ ہم نے بلین ٹری، بی آر ٹی اور مالم جبہ کرپشن کیسز اجاگر کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ تو آپ صرف عمران خان کے خلاف اپنی مہم کے تقاضے پورے کرتے رہے ہیں۔ عمران خان اور منظور پشتین سے ہٹ کر اپنا کوئی ایسا کام دکھایئے جس کا تعلق خیبر پختون خوا کے کسی حقیقی مسئلے سے ہو۔آپ کسی چھوٹے صوبے کے لئے کیا سچ بولیں گے اور اس کے حقوق کے لئے کیا آواز بلند کریں گے؟ آپ کی تو اوقات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب چلے جاؤ تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ خطہ بھی “ہرے بھرے پنجاب” کا حصہ ہے۔ ہمیں تو ٹوپی کا ٹریڈ مارک رکھنے والا ہمارے ہی صوبے کا منظور پشتین فریب نہ دے سکا، توآپ کے ٹوپی ڈرامے کی کیا اوقات؟