ایک پستول بردار یہودی مسلح گروپ کا سابق ممبر ہے جبکہ دوسرا مذہبی بنیاد پرست یہودی جو اپنی اس شناخت پر فخر کرتا تھا۔ دونوں فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے آباد کار اور فلسطینیوں کے بد ترین مخالف ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے ریاستی حق اور خود مختاری سے دستبرداری کی بات کرتے ہیں۔
اب وہ نیتن یاہو کی حکومت میں ان کے سینئیر اتحادی ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو، بین گویر اور بیزلیل سموتریش اقتدار اور اختیار پر رسائی کے حامل ہوں گے۔ وہ مغربی ملکوں کے لیے بھی ایک پریشان کن منظر پیش کریں گے۔ اسرائیل جو ایک زمانے میں بائیں بازو کی طرف جھکاو رکھنے والے اور سیکولر غلبے والی شخصیات کا حامل بھی رہا ہے۔ اہل مغرب ان شخصیات جو اپنے دوستوں کے طور پر دیکھتے تھے۔
نیتن یاہو نے لمبی کرپشن کے الزامات اور مقدمات کے بعد سنٹرسٹ پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ جانے کے بعد خود کو شدت پسند قوم پرستوں کی طرف موڑ لیا ہے۔ یاہو کو حکومت کے لیے ان قوم پست یہودی تنظیمون کی حمایت درکار تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ان شدت پسند قوم پرستوں کے مطالبات کے ماننے سے سے انکار کا تاثر بھی بنانا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں یاہو کہتے ہیں وہ لوگ ان کے اتحادی بے ہیں نیتن ان کے اتحادی نہیں بنے ہیں۔ حکومتی قیادت میں نے کرنی ہے۔ اس لیے دوسری جماعت میرے ساتھ آک مل رہی ہیں۔ اس لیے میں لبرل دائیں بازو کے خیالات اور ایجندے کو نافذ کر سکوں گا۔ ‘
نیتن یاہو اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتے ہین ان کے حکومتی اتحادیوں میں سے بھی کئی اپنے پہلے والے نظریات کو چھوڑ کر اعتدال پسندی کی طرف آچکے ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی اندازہ ہے کہ حکومت اور اقتدار کے ساتھ لازماً ذمہ داری بھی آتی ہے۔
اس سے پہلے ایویگڈور لائبرمین کی ایک نظیر بھی موجود ہے۔ جو ایک آتش بدشت شخص تھا۔ اسے 2006 میں نائب وزیر اعظم بنایا تو اسے بہت متحرک ہونا پڑا۔ یہی معاملہ بین گویر کا ہو گا۔ بین گویر کے ابھرنے او لبرل طبقے کی طرف سے خانہ جنگی کے انتباہات، ٹی وی شوز میں طنز اور ایک نازی کے طور پر نمایاں کیا۔ جس طرح لائبر مین نے ثابت کیا کہ وہ سیاسی اعتبار سے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ اس نے ایک مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ حکومت میں رہتے ہوئے کام کیا۔ اب اپوزیشن میں آنے کے بعد لائبر مین نے نیتن یاہو کے نئے اتحادیوں کو انتہا پسند اور جارح قرار دیا۔ اگرچہ لائبر مین ابھی بھی نیتن یاہو کی حکومت کے لیے نقصان دہ کردار ادا کر سکتا تھا۔
وہ اب بھی مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے لیے اہم ہو سکتے تھے جیسا کہ نیتن یاہو کی پہلے والی حکومت میں وزیر خارجہ کے طور لائبرمین نے فلسطینیوں کے بارے میں عوامی سطح پر زیادہ سخت موقف اختیار کیا تھا۔ بعد میں وہ وزیر اعظم یاہو کے خلاف استعفیٰ بھی دے دیا کہ یاہو غزہ میں جنگ میں تیزی نہیں چاہتے تھے تھے۔ جبکہ بطور وزیر دفاع لائبر مین چاہتے تھے۔
اب سموتریش کویہی ثابت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ مسجد اقصیٰ میں جو کہ مسلمانوں کے لیے بہت مقدس جگہ ہے۔ جسے یہودی بھی اپنے دو معبدوں کی وجہ سے بہت مقدس مانتے ہیں۔ نیتن یاہو کے حکومت میں سابقہ پندرہ برسوں کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو انتہا پسندوں کے لیے اپنے پروں سے بنا گھونسلہ ثابت کرتے ہیں۔ یا انتہا پسند عقابوں کے پر کاٹتے ہیں۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک کے صدر یوحنا پلیسنر کا کہنا ہے ‘اپنے انتہاپسند اتحادیوں کے ساتھ نئی حکومت میں ان کے لیے آسان نہ ہو گا کہ وہ پہلے والے تجربات دہرا سکیں۔’
بین گویر اور سموتریش کے مغربی کنارے کے الحاق سے متعلق مطالبات کے حوالے سے نیتن یاہو کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ وہ بیانات کی حد تک ان مطالبات کے حامی تھے مگر عملی طور اقدامات کو خطرناکی میں اضافے کو موجب سمجھتے ہوئے گریز پا رہے۔ یاہو ان اقدامات سے واشنگٹن اور عرب شراکت داروں سے جھگڑا مول لینا نہیں چاہتے تھے۔
اب نوبت یہ ہے کہ سموتریش کابینہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہودی بستیوں کی تعمیر اور اس سے متعلق امور کو وہی دیکھے گا۔ اگرچہ کہ عالمی طاقتوں کی بڑی تعداد ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہے۔ وہ مقبوضہ علاقوں کو استعمال میں لانا چاہتا ہے جنہیں فلسطینی اپنی آزاد فلسطینی ریاست کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔
شالوم ہارٹ مین انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ فیلو اموتز آساایل کے مطابق بطور وزیر سموتریش اپنی اثر پذیری کو کئی گنا بڑھا اور مضبوط کر سکتا ہے۔ جس سے مغربی کنارے میں اسرائیلی موجودگی بڑھ سکتی ہے۔
اس کے برعکس بین گویر پہلی بار وزیر بننے کے بعد پولیس کے امور کنٹرول کرتے ہوئے امن و امان کو برقرار رکھے گا۔ امن و امان کے مسائل جن سے عرب بھی متاثر ہیں، لیکن انہی عربوں کے خلاف خود بین گویر بھی احتجاج کرتا رہتا ہے۔ بین گویر کو مغربی کنارے میں زیادہ اختیار مل سکتا ہے یا یہ زیادہ اختیار اسرائیلی فوج کے پاس ہی رہتا ہے اس بارے میں جلد اندازہ ہو جائے گا۔ بہرحال 46 سالہ بین گویر اور 42 سالہ سموتریش دونوں کی کابینہ میں شمولیت مغربی کنارے کے حوالے سے اہم ہو گی۔ تاہم انہیں 73 سالہ یاہو کے ساتھ اپنے ایجنڈے کے لیے کسی قدر تحمل دکھانا ہوگا۔
تجزیہ العربیہ