گزشتہ 1 سال کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بہت سے انقلاب آئے، بہت سے سرمایہ کار دولت مند بنے، بہت سے تباہ حالی کا شکار ہوئے اور جمع پونجی تک گنوا بیٹھے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر جو رپورٹ سامنے آئی ہے، اس نے بہت سے سرمایہ کاروں کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ بہت سی کمپنیوں کے حصص میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا جس کا مختصر احوال ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں 1 روپے والا شیئر 15 روپے پر چلا گیا جو 1 ہزار 118 فیصد اوپر گیا۔ جس کی مثال ٹیلی کارڈ کمپنی سے دی جاسکتی ہے۔
دوسری مثال ٹی آر جی کی ہے جو 28 روپے کا شیئر تھا، وہ ایک سال میں 168 روپے تک جا پہنچا۔سروس فیبرک لمیٹیڈ کا 3 روپے 8 پیسے کا شیئر 29 روپے 67 پیسے تک جا پہنچا جو 863 فیصد اضافہ ہے۔
ٹی پی ایل پراپرٹیز 5 روپے 20 پیسے کا شیئر تھا جو 31 روپے 3 پیسے تک چلا گیا جو 497 فیصد اضافہ ہے۔ اے کے ڈی سی کا شیئر 86 روپے 10 پیسے کا تھا جو 655 روپے کا ہوگیا اور یہ 660 فیصد اضافہ ہے۔
ڈبلیو ٹی ایل 86 پیسے کا شیئر تھا جو 4.52 روپے پر چلا گیا جس میں 425.58 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ نیٹ سول 49 روپے 99 پیسے کا شیئر تھا جو 304 روپے کا ہوگیا جس میں 509 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔(یہ ایک فہرست ہوئی جسے ہم اول الذکر کمپنیاں کہیں گے)۔
لیکن اس کے برعکس او جی ڈی سی ایل کا شیئر 86 روپے 25 پیسے کا تھا جو 119 روپے 80 پیسے تک گیا یعنی یہاں صرف 38.90 فیصد اضافہ ہوا۔ایم سی بی 150 روپے کا شیئر تھا جو 202 روپے تک پہنچا، جس میں 34 فیصد اضافہ ہوا۔نشاط ملز کا شیئر 77.56 روپے کا شیئر تھا جو 124.89 روپے تک پہنچا، یہ 61.15 فیصد اضافہ ہے۔ان کمپنیوں کو آخر الذکر کمپنیاں کہا جائے گا۔
غور کیجئے تو یہ صورتحال بے حد حیران کن بلکہ خطرناک حد تک تشویشناک ہے کیونکہ زمینی حقائق کے برعکس اسٹاک مارکیٹ میں ان کمپنیوں کے شیئرز میں عجیب و غریب اتار چڑھاؤ نظر آیا جیسے کوئی نادیدہ طاقت ان شیئرز کو اپنی مرضی سے سستا اور مہنگا کر رہی ہو۔
اول الذکر کمپنیوں کے شیئر بہت تیزی سے اوپر گئے جبکہ آخر الذکر کمپنیاں ان کے مقابلے میں کہیں پیچھے نظر آئیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ جبکہ آخرالذکر کمپنیاں دنیا بھر میں بہترین کمپنیاں مانی جاتی ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ سے انہیں پورٹ فولیو کے اعتبار سے سب سے اچھا شیئر سمجھا جاتا ہے۔
بلکہ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو ہر سال ڈیویڈنڈ اور بونس دیتے ہیں۔ تاہم ان کے شیئرز چند لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان میں شرحِ نمو صاف ظاہر ہے۔
اس کے مقابلے میں 200 سے 1500 فیصد شیئرز اوپر گئے ہیں، ان کی تحقیقات کرنے والا کوئی نہیں۔ نہ ایسی کمپنیاں ڈیویڈنڈ دیتی ہیں، نہ بونس دیتی ہیں۔ مگر اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ 1 سال سے ان شیئرز کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہوشربا اضافہ ہورہاہے۔
ایک غریب آدمی جو یہ سوچ کر اسٹاک ایکسچینچ میں سرمایہ کاری کرتا ہے کہ ان شیئرز میں پیسے لگانے سے وہ امیر ہوجائے گا، اسے غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ الٹا پڑ جاتا ہے کیونکہ جب اے کے ڈی کیپٹل جیسے شیئر میں یہ سوچتے ہوئے پیسہ لگاتا ہے کہ یہ شیئر 86 روپے 10 پیسے سے 655 روپے تک گیا ہے تو وہ شیئر بہت اچھا ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
حقیقت میں جب یہ 655 روپے والا شیئر واپس 86 روپے 10 پیسے تک آجاتا ہے تو وہ غریب شخص تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں کبھی سرمایہ کاروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ سرمایہ کار ہمیشہ تباہ و برباد ہوئے۔
لیکن چند لوگ جو 10 فیصد سے 1500 فیصد تک کسی کمپنی کی قیمت کو لے جاتے ہیں ، وہ اربوں کھربوں کے مالک بن جاتے ہیں اور جو غریب اپنی جمع پونجی 1500 فیصد اوپر پر سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ویسے تو بہت سے محکمے بن چکے ہیں، مگر یہ دیکھا جارہا ہے کہ پچھلے 1 سال سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ 1500 فیصد اوپر جانے والی کمپنی کی ورتھ کیا 1500 فیصد نہیں تو 1000 فیصد اوپر گئی ہے یا نہیں؟
عمران خان کو چاہئے کہ ان ڈاکوؤں سے حساب لیں جو اسٹاک ایکسچینج کو پچھلے 70 سال سے لوٹتے چلے آرہے ہیں اور بہت سے کارخانوں کے مالکان یہ خود اور ان کے بچے بن چکے ہیں جو پبلک لمیٹیڈ کمپنیوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔
اگر یہ نظام بدلا نہ گیا تو اسٹاک مارکیٹ ہمیشہ انہی سرمایہ کاروں کے ساتھ چلتی رہے گی اور پرانے سرمایہ کار مرتے رہیں گے اور نئے سرمایہ کار آتے رہیں گے۔ سرمایہ کاروں کی مجموعی تعداد نہیں بڑھے گی۔
اس کی مثال نیٹ سول کمپنی سے دی جاسکتی ہے جو 49 روپے 99 پیسہ سے شیئر اوپر گیا اور 304 روپے کی سطح تک چلا گیا اور پھر آج دوبارہ یہ شیئر 177 روپے پر ٹریڈ ہورہا ہے۔ اس کمپنی میں یہ تبدیلی سالہا سال میں نہیں آئی بلکہ چند دنوں میں آئی ہے۔
سرمایہ کاروں نے ایسی کمنپی میں چند دنوں میں 70 فیصد نقصان اٹھایا ہے اور دوبارہ اسی کمپنی کی قیمت کو اٹھایا جائے گا اور پھر گرایا جائے گا۔ یہ سلسلہ صرف نیٹ سول کے ساتھ نہیں بلکہ بیشتر کمپنیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے جس کی وجہ سے جو حقیقی سرمایہ کار ہیں وہ اپنا سرمایہ گنوا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
دوسری جانب صرف چند لوگ جو اس کھیل کے حصےدار ہیں، وہ امیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صرف سیاسی لوگ چور نہیں ہیں بلکہ اسٹاک مارکیٹ کے چند لوگ ایسے ہیں جو سیاستدانوں سے زیادہ چوری کرکے آج بھی عزت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان سب معاملات پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔