پشاور میں 12 ربیع الاوّل کے موقعے پر منعقدہ رحمۃ اللعالمین ﷺ کانفرنس میں قومی ترانے پر دیگر حاضرین تو کھڑے ہوئے تاہم افغان قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے جو ملکی قوانین اور سفارتی روایات و آداب کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی درست اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بعد ازاں افغان قونصلیٹ کے ترجمان نے وضاحتی بیان میں کہا کہ پاکستانی ترانے میں کیونکہ موسیقی تھی، اس لیے افغان قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے۔ کھڑے نہ ہونے کا مقصد پاکستانی ترانے کی بے حرمتی اور بے توقیری ہرگز نہیں تھا بلکہ ترانے میں میوزک تھا، اس لیے افغان قونصل جنرل کھڑے نہیں ہوئے بلکہ ہم نے تو اپنے قومی ترانے پر بھی موسیقی کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔
ترجمان افغان قونصلیٹ نے مزید کہا کہ اگر ترانہ بغیر موسیقی کے چلتا یا بچے پیش کرتے تو قونصل جنرل لازمی کھڑے ہوتے اور سینے پر ہاتھ بھی رکھتے۔ پاکستان یا قومی ترانے کی توہین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاہم دفتر خارجہ نے قومی ترانے کی بے حرمتی پر شدید ردِ عمل جاری کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ میزبان ملک کے قومی ترانے کی بے حرمتی سفارتی روایات و آداب کے خلاف ہے۔
سفارتی روایات و آداب یا ملکی قوانین کوئی زبانی کلامی چیز نہیں بلکہ وہ تحریری اصول و ضوابط ہیں جن پر عملدرآمد ہر سفارت کار بشمول قونصل جنرل کا فرض ہوتا ہے اور یقینا ً اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان قونصل جنرل کا اقدام سفارتی روایات و آداب اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی تھا ، جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ جنیوا کنونشن 1961 کے آرٹیکل 9 اور 21 کے تحت بھی اگر دیکھا جائے تو افغان قونصل جنرل کا اقدام بین الاقوامی روایت اور جنیوا کنونشن 1961 کی روح کے بھی خلاف ہے۔
گو کہ اتنی صراحت کے ساتھ کہیں بھی نہیں لکھا کہ جب قومی ترانہ پڑھا جائے تو قونصل جنرل یا سفارت کار ضرور کھڑے ہوں لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ ملکی قوانین اور جس ملک میں کسی سفیر یا قونصل جنرل کو تعینات کیا جاتا ہے، وہاں کی تہذیب و ثقافت اور اقدار و قوانین کو مدنظر رکھنا ہرسفارت کار کا فرض ہوا کرتا ہے۔ حالانکہ افغان طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے باضابطہ طور پر افغانستان کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس کا بھی ایک پختہ جواب موجود ہے۔
جب پاکستان نے افغانستان کو اپنا سفارت خانہ یہاں کھولنے کی اجازت دی، اس کے بعد آفیشل طور پر تو افغانستان ایک ایکریڈیٹڈ ملک کی فہرست میں شامل ہے جسے پاکستان نے دفتری اعتبار سے تسلیم کرلیا ہے، لیکن یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ سفارت کار کو قومی ترانے پر کھڑا ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ اور یہ سوال دنیا کے کسی بھی سفارت کار سے پوچھا جائے تو وہ جواب دے گا کہ پاکستان کا قومی ترانہ بجائے جانے پر افغان قونصل جنرل کو کھڑے ہونا چاہئے تھا اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تویہ سفارتی اعتبار سے بالکل غلط ہے۔
عالمی قانون کا جو حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت کار کو ملکی قوانین کی عزت و احترام ضرور کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک سفارتی ضابطہ یہ بھی ہے کہ افغان قونصلیٹ کے ترجمان نے پاکستان سے معذرت کر لی تو پاکستان کو بھی یہ معذرت تسلیم کرنی چاہئے اور پاکستان یہ کر لے گا۔ اس واقعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ تمام تر واقعے کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا وہاں موجود تھے جن کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔
تقریب کے منتظمین کو قبل از وقت یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ افغانستان نے تو اپنے قومی ترانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے کیونکہ وہ موسیقی کے ساتھ ہے اور ایسے میں کیا وہ لوگ پاکستانی قومی ترانے کا احترام کریں گے یا نہیں؟ تقریب میں قونصل جنرل کی شمولیت سے قبل ہی یہ سوال و جواب بھی کرلیے جاتے تو ایسا مسئلہ سامنے نہیں آسکتا تھا۔ اب جو افغانستان نے قومی ترانے پر موسیقی کی وجہ سے پابندی لگائی تو یہ پابندی شریعت کو بنیاد بنا کر لگائی گئی ہے۔
اسلامی شریعت صرف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کیلئے قابل احترام ہے۔ اگر معاملے کی حساسیت کو پہلے سے پرکھ لیا جاتاتو پاکستان کا قومی ترانہ بچوں اور موسیقی کے بغیر بھی ہوسکتا تھا جیسا کہ بے شمار اسکولز میں جب بچے قومی ترانہ پڑھتے ہیں اور ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس میں موسیقی بالکل بھی شامل نہیں ہوتی اور اگر باہمی روابط کو بہتر بنایا جاتا، جیسا کہ دیگر ممالک کے بھی افغانستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، تو وہاں قومی ترانہ اگر موسیقی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس سے قبل گفت و شنید ہوجایا کرتی ہے۔
پاکستان، بالخصوص خیبر پختونخوا حکومت بھی قومی ترانے پر کھڑا نہ ہونے کی صورت میں افغان قونصل جنرل سے اپنے مقامی دفتر خارجہ نمائندے کے توسط سے یہ طے کرسکتی تھی کہ اگر قومی ترانہ 10 بج کر 12 منٹ پر ہورہا ہے تو آپ ساڑھے 10 بجے تک تشریف لے آئیں۔ اس طرح افغان قونصل جنرل کو بھی شرمندہ ہو کر پاکستان کیلئے معذرت خواہانہ بیان بھی جاری نہ کروانا پڑتا۔ سفارت کار کو اپنے ملک اور جس ملک میں وہ تعینات ہے، دونوں کے قوانین کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ پاکستان کے افغانستان سے تعلقات بتدریج خراب ہوتے جارہے ہیں جس کا فائدہ دشمن ممالک زیادہ اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسی صورت میں اس قسم کے مسائل کو ہمیں اپنی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حل کرنا چاہئے تاکہ پاکستان کے ہم نواؤں اور دوستوں کے دشمنوں میں بدلنے کا سلسلہ جو مختلف حیلے بہانوں سے جاری ہے، اسے ختم کیا جاسکے اور دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سفارتی و بین الاقوامی سطح پر بھی ملکی تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کی جاسکے۔