پی ٹی آئی حکومت نے دو ماہ میں دوسری مرتبہ نیب تر میمی آرڈیننس جاری کردیا ہے، اس سے قبل یکم نو مبر کو نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 جاری کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ روزصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کے حوالے سے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دے دی ہے۔
نیب آرڈنینس کے مطابق سرکاری ملازمین کے اثاثوں میں بیجا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی اورایسے ملازمین کیخلاف کارروائی ہوگی جن کیخلاف نقائص سے فائدہ اٹھانے کے شواہد ہونگے تاہم نئے آرڈیننس کے مطابق محکمانہ نقائص پر نیب سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی نہیں کرے گاجبکہ تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار ملازم ضمانت کرانے کا حقدار ہوگا۔
نیب آرڈنینس کے تحت ٹیکس، اسٹاک ایکسچینج، آئی پی اوز کےمعاملات پراب ایف بی آر کارروائی کرسکے گاجبکہ قومی احتساب بیورو50 کروڑ سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کرسکے گالیکن سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ حکومت پشاور میٹرو، مالم جبہ اورہیلی کاپٹر مقدمات میں نیب تفتیش رکوانے کے لئے نیب کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے این آراوپلس لایا جارہا ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نیب آرڈیننس میں وفاقی ترمیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ترمیم کیخلاف عدالت جانے کا عندیہ دیا ہےجبکہ ترمیمی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کے خلاف سپریم کورٹ کے وکیل محمو د اختر نقوی ایڈووکیٹ کی جانب سے آئینی درخواست دائر کی گئی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کو فوری معطل کرنے کا حکم دیا جائے۔
انہوں نے درخواست میں وفاق،چیئرمین نیب، وزارت قانون اور دیگرفریق بنایا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیاگیاہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس آرٹیکل 25 کےخلاف ہے اورآرڈیننس وزرااورسرکاری افسران کی کرپشن کوتحفظ دینے کی کوشش ہے۔
حکومت نے احتساب کے قانون کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیل کر دیا ہے تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اب نیب پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ ، سوات کے مالم جبہ کیس اور عمران خان کے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کی تفتیش نہیں کر سکے گا۔
نیب قانون میں یہ ترمیم جمعے کو اس وقت کی گئی جب یہ افواہیں سامنے آ رہی تھیں کہ حکومت کی بعض اہم شخصیات کی گرفتاری اور ان کے خلاف ریفرنسز دائرکیے جانے کا امکان ہے۔
جمعہ کے روزکراچی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تقریب میں شریک بعض افراد کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ ’یہاں میرے کچھ دوست بیٹھے ہیں جن کو نیب بلا رہی تھی۔ آج ان کو خوشی ہوگی اور ان کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اب نیب کسی بزنس مین کو تنگ نہیں کرے گی۔ ہم نے آرڈی ننس جاری کر دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے نیب قانون میں ترمیم ایک مستحسن اقدام ہوسکتا ہے کیونکہ نیب ہر معاملے میں کاروباری افراد کا غیر ضروری طور پر پیچھا کرتا تھا جس کی وجہ سے کاروباری افراد سرمایہ کاری سے گریز کرتے تھے تاہم اب نیب سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا ہے جس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔
نیب کی کارروائیوں سے سرکاری افسروں میں فیصلہ سازی کی قوت کو ختم کر کے رکھ دیا تھا ،حکومت کو یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا تاہم من پسند لوگوں کو مقدمات سے بچانے کے لیے آرڈیننس سے یکساں احتساب کاعمل متاثر ہوسکتا ہے۔