نیب میں ترامیم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیب قوانین میں ترمیم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین سخت کشیدگی برقرار ہے۔ حکومت اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین کو ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے مطابق نیب سے جوڑنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بات نیب قانون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اپوزیشن نے نیب کے مجوزہ قانون میں 35 ترمیم کی تجویز پیش کی ہے، اس کو ایف اے ٹی ایف سے منسلک کرنے اور منی لانڈرنگ کو جرائم کی فہرست سے خارج کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، ان میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ نیب ایک ارب روپے سے نیچے کسی بھی کیس کی تحقیقات نہ کرے اور نیب کے چیئرمین کی مدت ملازمت کو کم کیا جائے۔اپوزیشن نے عوامی عہدے پر فائز رہنے والے سزا یافتہ پر دس سال کی پابندی پر بھی اعتراض کیا ہے۔

حکومت کے پاس وقت کم ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے عملی منصوبے پر نظرثانی کے لئے آخری تاریخ 20 ستمبر ہے، اس کے باوجود اپوزیشن اپنے آپ کو متعلقہ کیسز میں معاف کرانے کے لئے مطالبہ کررہی ہے، وزیر خارجہ قریشی نے اپوزیشن کے ان مطالبات کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے کیونکہ اس سے ایف اے ٹی ایف میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے متعلق مالی معاونت اداروں کے خلاف پاکستان کے معاملے کو کمزور کردے گی۔

اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت مجوزہ قوانین پر سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت بجٹ سے انکار کر رہی ہے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ ترامیم نیب کی بندش کے مترادف ہیں بجائے اس کے کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو سزا دیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے احتساب کے عمل پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

نیب کو گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں ثبوت اور پچاس سے زیادہ عینی شاہدین کے ساتھ مضبوط ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ چیئرمین نیب کو تین ماہ کے اندر تحقیقات ختم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔ اس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ایسا نا ممکن ہے، اعلیٰ عدالت یہ بھی چاہتی ہے کہ 120 مزید احتساب عدالتیں اپنے کام میں تیزی لائیں اور کیسز کا دباؤ کم کریں۔

اپوزیشن اس بات کا مطالبہ کررہی ہے کہ نیب کو اس کی ناقص کارکردگی کی بناء پر بند کردینا چاہئے، پہلے گرفتاری کی جاتی ہے اور پھر کیس کی چھان بین کی جاتی ہے، اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ نیب کے ذریعے تحقیقات کی زد میں آنے والے اور گرفتار کئے جانے والے سب سیاسی قیدی ہیں انہیں رہا کیا جانا چاہئے، جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ حزب اختلاف جب اقتدار میں تھی تو اس نے نیب کے قوانین میں ترامیم کیوں نہیں کیں۔

اب یہ سیاسی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے جس پر تمام فریقوں کو متحد ہوکر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ نیب کے قوانین کو منی لانڈرنگ کے خلاف سخت کرنے اور نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردی کے خلاف مزید مستحکم کرنے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں۔

Related Posts