مسلم امہ کے احتجاج سے بھارت کے ہوش ٹھکانے آگئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بی جے پی رہنما نوپور شرما کی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی، رہنما کو پولیس نے طلب کرلیا
بی جے پی رہنما نوپور شرما کی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی، رہنما کو پولیس نے طلب کرلیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ناموس رسالت مسلم امہ کی ریڈ لائن اور ہر کلمہ گو مسلمان کے ایمان کی جان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمل اور پریکٹس کے اعتبار سے ایک ناقص سے ناقص مسلمان بھی ناموس رسالت کے بارے میں ایک معمولی حرفِ غلط بھی سننے کا روادار نہیں ہوتا اور اس پر سخت رد عمل کو اپنے دین اور ایمان کا تقاضا سمجھتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ہر مذہب کے پیروکاروں کیلئے ان کے مذہبی شعائر، بنیادی مذہبی تصورات اور اعتقادات اتنے ہی اہمیت کے حامل ہیں، جتنے کسی مسلمان کیلئے اس کے دینی معتقدات کی اہمیت اور حیثیت ہے۔ ہم ایک مسلمان اکثریتی معاشرہ ہیں، ایک اچھے اور با شعور مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے غیر مسلم وطنی بھائیوں کے مذہبی جذبات کا بھی احترام اور خیال رکھنا چاہیے۔ یہ بالکل غلط اور غیر اخلاقی رویہ ہوگا کہ ہم خود کو برتر سمجھ کر باقی مذاہب کے پیروکاروں کی مذہبی تعلیمات کی بھد اڑانا اپنا حق سمجھیں۔

ایسے ہی دنیا کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ جس طرح اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کیلئے ان کے مذہبی نظریات اور انکے مذہب کے شعائر اور امتیازات معنی رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح مسلمان بھی ہیں۔ ان کے بھی مذہبی جذبات، حساسیت اور کچھ ریڈ لائنز ہیں، جن کو عبور کرنا ان کیلئے اذیت ناک ہوتا ہے۔

عصر حاضر کے مسلم دنیا کے لیڈر سابق وزیر اعظم عمران خان اور رجب طیب ایردوان ببانگ دہل دنیا کے ہر فورم پر مسلمانوں کی اس مذہبی حساسیت کے متعلق بتا چکے ہیں، مگر اس کے باوجود برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔ مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات کی بنیاد پر چھیڑنے اور اذیتیں دینے کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔

بھارت میں گزشتہ دنوں ایک ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کی خاتون ترجمان نو پور شرما نے شر انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر تنقید سے آگے بڑھتے ہوئے براہ راست اسلام پر حملہ آور ہوئیں اور اسی پر بس نہیں کیا، انہوں نے مباحثے میں شریک مسلمان رہنما پر بھڑکتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس تک زبان دراز کرنے کی کوشش کی، جس پر مسلمان رہنما نے احتجاجاً شو چھوڑ دیا۔

اس واقعے پر سب سے پہلے بھارت کے مسلمانوں نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا، جس پر بی جے پی، بھارتی حکومت اور یہاں تک کہ دریدہ دہن نو پور شرما بھی ٹس سے مس نہ ہوئی اور مسلمانوں کے احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ نو پور شرما تو ڈھٹائی پر اتر آئی اور اس نے مسلمانوں کا احتجاج مسترد کر دیا۔

اس کے کچھ دن بعد بی جے پی کے دہلی ونگ کے ایک رہنما نوین کمار جندال نے نوپور شرما کی حمایت میں ٹوئٹر پر شر انگیزی دہرائی اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور احتجاج کا دائرہ پاک و ہند کی سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا کی اسلامی برادری میں تک وسیع ہوگیا۔

دنیا بھر سے سخت رد عمل آنے کے بعد بھارت کی نسل پرست انتہا پسند مودی سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے اور جو کل تک بھارتی مسلمانوں کے احتجاج پر کان دھرنے کو تیار نہ تھے، انہوں نے مسلمانوں کے رد عمل کے خوف سے نو پور شرما اور جندال کو پارٹی عہدوں سے معطل کر دیا۔

بھارت کے عرب دنیا کے ساتھ بڑے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات صرف حکومتوں کی سطح پر نہیں ہیں، بلکہ عرب دنیا کے عوام، سرکاری اور کاروباری ادارے بھی بھارت اور بھارتی شہریوں کو خصوصی پروٹوکول دیتے ہیں۔

عرب دنیا میں بھارت اور بھارتی شہریوں کے اس مقام اور احترام کے اسباب کا ذکر اس وقت موضوع بحث نہیں، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کا یہ تمام تر احترام اسلام دشمن بی جے پی کے دو انتہا پسند رہنماؤں نے خاک میں ملا دیا ہے۔

توہین اور گستاخی کی خبریں چھن چھن کر عرب دنیا میں پھیلنا شروع ہوئیں تو خلیج سے شمالی افریقہ تک پوری عرب قوم آگ بگولہ ہوگئی اور اب تمام عرب ملکوں میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زوروں پر ہے۔

سلطنت عُمان (جسے پاکستانی میڈیا میں عموما غلط طور پر اومان لکھا جاتا ہے) کے مفتی اعظم نے گستاخی کے اس عمل کو پورے بھارت کی طرف سے تمام امت مسلمہ کیخلاف اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ اور پورے عالم اسلام کو مشترکہ طور پر بھارت کے خلاف سخت ردعمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس گستاخانہ عمل کی مذمت اور اس پر غیظ و غضب کے اظہار میں اس وقت پورا عالم اسلام متحد ہے۔ پاکستان، کویت اور ایران نے بھارتی سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کرکے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروایا ہے، جبکہ سعودی عرب سمیت مسلم دنیا کے کئی ممالک نے سرکاری سطح پر مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔

شان رسالت میں آزادی اظہار کے نام پر گستاخی مغرب کا وتیرہ رہا ہے اور ہر کچھ عرصے بعد یورپ کے مختلف ملکوں سے مسلمانان عالم کو ذہنی اور قلبی اذیت میں مبتلا کرنے والے ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، تاہم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف سرکاری اور سماج کے اکثریتی طبقے کی طرف سے بڑے پیمانے پر نفرت اور تعصب کے باوجود براہ راست شان رسالت پر حملہ ایک نادر اور غیر معمولی واقعہ ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور زیادتیاں کسی سے مخفی نہیں، تاہم ہندوستان پر مسلمانوں کی آٹھ صدیوں پر محیط حکمرانی کے تہذیبی اور مذہبی اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ وہاں اسلام دشمنی کے عمومی رویے کے باجود مجموعی طور پر مسلمانوں کے مذہبی شعائر اور بالخصوص شان رسالت کی تقدیس کے متعلق حساسیت کا لحاظ پایا جاتا ہے۔ معاملہ اگر بالعکس ہوتا تو یقیناً بھارت کے حالات موجودہ منظر نامے سے بہت زیادہ مختلف ہوتے۔

مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ملکوں اور عوام کا شدید رد عمل بھارتی حکام دیکھ ہی رہے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ بھارت مغرب کی طرح مضبوط اور بالا تر قوت ہے اور نہ ہی وہ عالم اسلام کی بہت بڑی مارکیٹ سے مستغنی اور بے نیاز ہو سکتا ہے۔ بھارت کو مسلمانوں کے ساتھ تعصب، اسلام دشمنی کے عمومی رویے اور بالخصوص حالیہ گستاخانہ واقعے کے تدارک کیلئے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کرنے ہوں گے، اگر ایسا نہ ہوا اور بات خدا نخواستہ آگے بڑھ گئی تو اس سے پورا خطے کا امن داؤ پر لگ جائے گا اور اس کی تمام تر ذمے داری بی جے پی کی انتہا پسندانہ اور اسلام دشمن پالیسیوں پر عائد ہوگی، جبکہ مسلمانوں کو ساتھ لیکر چلنے میں بھارت کا ہی سیاسی اور معاشی فائدہ ہے۔

Related Posts