محمد اسد، پاسپورٹ حاصل کرنیوالا پہلا پاکستانی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آسٹریائی نژاد یہودی شہری محمد اسد جو اسلام قبول کرچکے تھے ، 1900 میں لیوپولڈ ویز کے ہاں  پیدا ہوئے جن کے آباؤ اجداد یہودی ربی یا مذہبی علماء تھے۔ ان کی زندگی اسلامی طبقۂ فکر کیلئے ایک مثال قرار دی جاسکتی ہے جو مسلم دنیا کے تمام شعبہ جات پر اثر انداز ہوئی جن میں مملکتِ خداداد پاکستان کے ابتدائی سال بھی شامل ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان محمد اسد کو اپنے لیے ایک ایسی مثال قرار دیتے ہیں جس نے انہیں مذہب کے راستے پر چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے پاکستانی شاید جانتے بھی نہیں کہ محمد اسد وہ پہلی شخصیت تھے جو باضابطہ طور پر پاکستان کے شہری بنے اور انہیں سب سے پہلے پاکستانی پاسپورٹ بھی حاصل ہوا۔

محمد اسد نے اپنی بالغ عمر کا زیادہ تر حصہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں گزارا اور 1926 میں اسلام قبول کیا۔ انہوں نے بہت سے سال سعودی عرب میں بھی گزارے جہاں سعودی شاہی خاندان ان کا دوست رہا اور پھر وہ برطانوی برصغیر چلے آئے اور زیادہ تر اپنی زندگی لاہور، ایبٹ آباد، سری نگر اور ڈالہاؤزی میں گزاری جو بھارت میں ہماچل پردیش کا ہل اسٹیشن ہے۔

جون 1932 میں محمد اسد پہلی بار کراچی آئے اور پھر لاہور جا پہنچے جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے نظریاتی جدِ امجد اور عظیم مفکر علامہ محمد اقبال سے ہوئی۔ اقبال نے محمد اسد کو برصغیر میں قیام پر آمادہ کیا اور جدوجہدِ آزادی میں حصہ لینے کی ترغیب دی جس کا نتیجہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم اورایک نئے ملک پاکستان کے آغاز کی صورت میں برآمد ہوا۔ علامہ اقبال اس دوران خالقِ حقیقی سے جا ملے جو اگر زندہ ہوتے تو محمد اسد کو نئی ریاست کی اسلامی بنیادیں استوار کرنے پر بھی آمادہ کرتے۔

علامہ اقبال کی تجویز پر محمد اسد نے صحیح بخاری کے منتخب حصوں کا پہلی بار انگریزی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے اسلام، ریاست کے تصور، حکومت کے نظریات اور مغرب کے اسلام سے روابط پر بہت کچھ لکھا اور کہا۔ اسلامی ریاست کے احیاء کے طور پرمحمد اسد کو پاکستان کا نظریہ بہت متاثر کرتا تھا۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پاکستان کو اسلامی ریاست کے طور پر متعارف کرانے کیلئے اسلامی تعمیرِ نو کا ایک شعبہ تشکیل دیا اور محمد اسد کو اس کا ڈائریکٹر تعینات کیا۔

آزادی کے وقت سعودی عرب میں پاکستان کا کوئی سفارت خانہ موجود نہ تھا جو حجاجِ کرام کو سہولیات مہیا کرسکتا، اس لیے اس وقت کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان محمد اسد کو 1947 میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کیلئے سعودی عرب بھیجنا چاہتے تھے۔ تاہم، محمد اسد کے پاس مستند سفری دستاویزات نہیں تھیں جن کی بنیاد پر سعودی عرب کا سفر کیا جاسکتا اور اس وقت پاکستان میں پاسپورٹ سے متعلق قوانین بھی کوئی وجود نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے یہ معاملہ شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے سامنے اٹھایا اور پھر وزیر اعظم کے خصوصی حکم پر  پاکستانی حکومت نے محمد اسد کو پہلا پاسپورٹ جاری کیا جو انہوں نے اپنے پاس 1992 میں اپنی وفات کے وقت تک رکھا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے محمد اسد نے بے حد اہم کردار ادا کیا اور یہ باہمی روابط آج تک مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔نہ صرف  محمد اسد کے سعودی شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات  بلکہ قرآن کی تفسیر اور انگریزی تراجم کا علمی کام بھی پاکستان کے بے حد کام آیا۔

محمد اسد کی وسیع سوچ کی ایک مثال مسلمان ممالک کی مشترکہ بین الاقوامی تنظیم (لیگ آف مسلم نیشنز) کا تصور ہے جبکہ وہ  40ء کی دہائی کے آخر اور 50ء کی دہائی کی ابتدا تک پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ممبر رہے۔ یہ عالمی تنظیم 1969 میں قائم ہونے والی اسلامی کانفرنس کے قیام سے سالوں قبل تخلیق ہونا تھی۔ محمد اسد کے بیان کے مطابق جب وہ انقرہ کے سرکاری دورے سے اس وقت کے وفاقی دارالحکومت کراچی لوٹے تو انہیں شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی ڈیسک سے عوامی تقریر کے نوٹس ملے جو وہ اگلی ہی صبح لیگ آف مسلم نیشنز اور آئین کے متعلق قوم کو بتانا چاہتے تھے۔افسوس کہ متعدد مسلم ممالک کے دورے کی رپورٹ اور لیگ آف مسلم نیشنز کے قیام کی تجویز وزارتِ خارجہ کی زنبیل میں کہیں کھو گئی اور پھر اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔

محمد اسد مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے زبردست حامی اور اسلام قبول کرنے سے قبل بھی صیہونیت کے مخالف تھے۔ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ مجھے یہ پہلے ہی لمحے سے احساس ہوگیا تھا کہ فلسطین میں یہودی بستیاں بسانا اور عرب قوم سے غلط سلوک غیر اخلاقی ہے۔ متعدد مواقع پر محمد اسد نے ڈاکٹر چائم ویزمین سمیت متعدد صیہونی رہنماؤں کو چیلنج کیا اور اصرار کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ یہودی شہری فلسطینی عربوں کے مقابلے میں زیادہ انسانی حقوق کیسے رکھ سکتے ہیں؟ جبکہ فلسطینی اس خطے میں 2 ہزار سال سے رہائش پذیر تھے۔

میرا یقین یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو محمد اسد کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ مملکتِ خداداد کے ابتدائی برسوں میں ایک معمار اور ملک کے نظریاتی شریک بانی رہے۔ ہمیں ان کی پاکستان کو اسلامی دنیا کا اہم ملک بنانے کے تصور اوران کے قائم کردہ شہریوں کے اخلاقی معیارات کی عزت کرنا ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ یومِ آزادی کے موقعے پر پاکستانی قوم کو انہیں یاد کرنا ہوگا لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ محمد اسد ہماری تاریخ کا ایک کورا کاغذ بن کر رہ گئے ہیں۔ 

Related Posts