کابینہ میں سنوائی نہ عوام میں پذیرائی، حکومت میں شامل ہوکر بھی ایم کیوایم کے مسائل کم نہ ہوسکے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

imran khan and khalid maqbool siddiqui

کراچی :متحدہ قومی موومنٹ کی کشتی بیچ منجدھار میں پھنس گئی، حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود سال 2020 میں بھی پارٹی کے سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔

کراچی میں دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ زبانی منظور ہونے کے باوجود عملی طور پر منظور ہونے میں حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، استعفے دینے کی ایم کیو ایم پاکستان کی دھمکی بھی موثر ثابت نہ ہوئی ، اب استعفے دیں تو گرفتاریوں کا خطرہ اور نہ دیں تو شہری سندھ کا ووٹ بینک ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے ۔

حکومت میں شامل ہوئے تیسرے سال 2020 میں بھی ایم کیو ایم پاکستان شدید مشکلات کا شکار رہی ، کراچی میں بلدیاتی قیادت ہونے کے باوجود شہریوں کو کچھ نہ دینے پر پہلے ہی کراچی کے شہری ایم کیو ایم سے سخت ناراض نظر آتے ہیں ۔

ایم کیو ایم کے میئر کراچی وسیم اختر اپنے 4 سالہ دور میئر شپ میں شہر کے بلدیاتی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور 4 سال تک صرف اختیار اور فنڈز نہ ہوے کا رونا روتے رہے ، معمولی معمولی مسائل حل کرنے میں فنڈز کی کمی کا بہانہ بنانے والے وسیم اختر کو کراچی کے عوام اب یہ کہتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹرز کو بھی آج وہی فنڈز مل رہے ہیں جو میئر کو ملتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ سڑکوں کی مرمت ہو رہی ہے اور سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس کی مرمت ہونے سے سڑکیں روشن ہو گئی ہیں۔

ان ہی مسائل کے حل کے لیے تو شہری میئر کراچی اور یو سی چیئر مینز کے دفاتر میں چکر لگاتے تھے،ایسی صورتحال میں سابق میئر کراچی وسیم اختر کا چہرہ شہریوں کے لیے ناقابل قبول بن چکا ہے جو ایم کیو ایم کی کھوئی ہوئی ساکھ کو مزید متاثر کر رہا ہے۔

ابھی ان مسائل سے نکلے ہی نہیں تھے کہ جماعت اسلامی کی سندھ شہری حقوق کی سیاست نے ایم کیو ایم کو ایک اور دھچکا پہنچا دیا ہے، کل تک جن مطالبات کے ذریعہ ایم کیو ایم عوام کے دلوں پر راج کرتی آئی تھی آج وہی مطالبات اب جماعت اسلامی نے اپنا لیے ہیں اور اسے عوام میں پذیرائی بھی مل رہی ہے۔

ایسے میں ایم کیو ایم پاکستان کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حکومت کا حصہ ہونے کا اتنا فائدہ ضرور حاصل کر لے کہ سیاسی آزادی اور دیرینہ مطالبات خصوصاََ دوبارہ مردم شماری اور بلدیاتی اختیارات دیئے جانے کے مطالبات منوا سکے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ، وفاقی وزیر اسد عمر ،علی زیدی سمیت کئی رہنما ایم کیو ایم کے مطالبات منظور کرنے اور دوبارہ مردم شماری کے حق میں ہیں ، تاہم بعض قوتیں اس مطالبے کی منظوری میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

اس کا نقصان جتنا ایم کیو ایم پاکستان کو ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ کراچی کے 3 کروڑ سے زائد عوام کو ہو رہا ہے ، جب گنتی ہی آدھی ہو تو وسائل بھی آدھے ہی ملنے کا امکان ہو تا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ کراچی کو وسائل فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی اور ہمیشہ ڈنڈی مار دی جاتی ہے، اس بار ایم کیو ایم پاکستان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر کے استعفے دینے کی جو دھمکی دی ہے اس کا جتنا نقصان پی ٹی آئی حکومت کو ہے اتنا ہی ایم کیو ایم کو بھی ہوگا ، پی ٹی آئی کی حکومت لڑکھڑا جائے گی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومت کی حیثیت ایک مخدوش دیوار کی سی ہو جائے گی اور اپوزیشن بڑی آسانی سے اسے گر سکتی ہے۔

دوسری طرف ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدگی کے ساتھ ہی اسکا زیر عتاب آنا بھی ممکن ہے اور کارکنان کے ساتھ اہم رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:وفاق کو چھوڑو سندھ حکومت میں آجاؤ! آصف زرداری نے متحدہ کو دعوت دیکر ہلچل مچادی

اس حوالے سے کہنہ مشق سیاستدان اور سیاسی مفاہمت کے بادشاہ سابق صدر آصف علی زرداری نے موقع دیکھتے ہوئے زبردست پتا کھیل دیا ہے اور ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت چھوڑ کر سندھ حکومت کا حصہ بننے کی پیشکش کر دی ہے ۔

اگر ایم کیو ایم اپنے 3 مطالبات سندھ حکومت سے منوانے مین کامیاب ہو گئی تو ایم کیو ایم سال 2021 مین کامیاب ہو سکتی ہے، ان میں پی پی پی سے مردم شماری دوبارہ کرانے کی حمایت حاصل کرنا، بلدیاتی قوانین از سر نو مشاورت سے تیار کر کے فوری نافذ کروانا اور اقتدار میں 40 فیصد کے تناسب سے مکمل اختیار اور مشاورت لازمی قرار دلوانا جیسی شرائط ہی ایم کیو ایم کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرا سکتی ہیں۔

Related Posts