مولانا طارق جمیل کا جنسی زیادتی کے واقعات پر بیان اور مخلوط تعلیم کا مسئلہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مولانا طارق جمیل کے روڈ حادثے کی خبریں جھوٹی قرار
مولانا طارق جمیل کے روڈ حادثے کی خبریں جھوٹی قرار

مولانا طارق جمیل بین المسالک ہم آہنگی اور متنازعہ موضوعات سے بچ کر چلنے والے اور عوام الناس میں بے حد مقبول عالمِ دین ہیں جن کی طرف سے گزشتہ روز ایک اہم بیان سامنے آیا۔

مشہورومعروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے لاہور میں موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے پر ردِ عمل دیتے ہوئے مخلوط تعلیم کا ذکر کیا، جس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ آئیے تمام تر صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔

جنسی زیادتی کے واقعات پر مولانا طارق جمیل کا ردِ عمل

گزشتہ روز کے مولانا طارق جمیل کے بیان کو دیکھا جائے تو وہ جنسی زیادتی کے تمام تر واقعات کا احاطہ کرتا دکھائی دیتا ہے جسے ہم جنسی زیادتی کے واقعات پر ان کا ردِ عمل بھی قرار دے سکتے ہیں۔

عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے موٹر وے واقعے کو بے حد شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور فرمایا کہ میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں ایسے واقعات میں جو مجرم ہوں، انہیں ہر ممکن سخت سے سخت سزا دی جائے۔

موٹر وے واقعے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا کہ میری زبان لڑکھڑا رہی ہے، عدلیہ اور قانون کو خدا کا واسطہ ہے، بدل دیں۔ پاکستان پر 150 سال پرانا قانون نافذ ہے جو انگریز بنا کر گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے بنایا گیا ہے لیکن حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ مل کر یہ قانون تبدیل کرے جو خود ایک ظلم ہے۔

عدالتی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا کہ انصاف کیلئے عدالت کا رُخ کرنے والے مظلوم کا سب کچھ بک جاتا ہے اور وہ پھر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ بے گناہی کا پتہ 10 سال بعد چلتا ہے۔

چنگیز خان کی مثال دیتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا کہ وہ بہت ظالم تھا جس نے اپنے دور کی سب سے بڑی حکومت بنائی، دنیا کے 22 فیصد حصے پر قابض شخص کا کوئی مذہب نہیں تھا اور وہ سورج کی پوجا کیا کرتا تھا۔

قدیم حکمران کی مثال سے مولانا طارق جمیل نے سمجھایا کہ چنگیز خان کے قانون میں زنا ، جھوٹ اور چوری کی سزا قتل تھی۔ وہ ایسا غیر مسلم تھا جس نے قانون کی حکمرانی کیلئے زبردست نظام بنایا جبکہ ہم مسلمان ہیں۔

مخلوط نظامِ تعلیم کی نشاندہی

اسلام کے معروف عالمِ دین ہونے کی حیثیت سے مولانا طارق جمیل نے والدین کو بھی ان کی ذمہ داری یاد دلائی۔ انہوں نے کہا کہ والدین کو سب سے پہلی درسگاہ قرار دیاجاتا ہے جو آج خود بچوں کی تربیت سے لاعلم ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ بچے اسکول جائیں اور پڑھیں اور پھر واپس آ کر ٹیوشن میں تعلیم حاصل کریں۔

اسکولوں کو کاروبار قرار دیتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا کہ تعلیمی ادارے کاروباری ادارے بن چکے ہیں جن سے تربیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب آگ اور پٹرول اکٹھے ہوں تو آگ نہ لگنا کیسے ممکن ہوگا؟

ان کا کہنا تھا کہ مخلوط تعلیم نے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دیا جس میں کوئی شک کی بات نہیں۔ میں نے خود کالج کی زندگی گزاری ہے اور پھر میں اللہ کے راستے پر چلا۔ والدین کو چاہئے کہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی تربیت اور حفاظت خود کریں۔ 

سوشل میڈیا پر بحث

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مولانا طارق جمیل آج کے ٹاپ ٹرینڈز میں سے ایک بن چکے ہیں۔ اِس ٹاپ ٹریند کے تحت لوگ مولانا طارق جمیل کے بیان پر اپنے اپنے انداز میں ردِ عمل دے رہے ہیں۔

یہاں سوشل میڈیا صارفین کو ہم 2 گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک تو وہ طبقہ ہے جو مولانا طارق جمیل کا احترام اور اسلام کا ادب کرتے ہوئے ان کے بیان کو درست قرار دے رہا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس کے خلاف ہے۔

ردِ عمل کی ایک سمت 

معاذ الحسن نامی سوشل میڈیا صارف نے مولانا طارق جمیل کے بیان پرردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ مخلوط تعلیم ملک میں بے حیائی اور جنسی بے راہروی کو فروغ دینے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مخلوط تعلیم اسلامی شریعت کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔ 

ہالہ ایوب نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ میں ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جہاں آپ حقیقت پر بات کرتے ہیں، پھر کچھ بیمار ذہن کے لوگ مولانا طارق جمیل پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ  یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ ایسے لوگ کتنے بیمار ہیں اور ہماری قوم میں جنسی زیادتی کے مجرم آزاد کیوں ہیں؟

کاشف ملک نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہماری قوم مولانا طارق جمیل جیسے عالمِ دین کا استحقاق نہیں رکھتی، میں نے مخلوط تعلیم سے اے لیولز مکمل کیا۔ میں نے بہت سے تعلقات بنتے ٹوٹتے دیکھے، یہ سب کیا تھا؟ دراصل مخلوط تعلیم ہی بے حیائی کی بنیاد ہے۔ چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ 

دوسری سمت 

اب ہم دوسری جانب کا ردِ عمل بھی ملاحظہ کرتے ہیں جو مولانا طارق جمیل کے بیان میں منفی نکات تلاش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فوزیہ علی نامی سوشل میڈیا صارف نے یہ سوال کیا کہ کیا موٹر وے واقعے میں خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے 2 مجرم مخلوط تعلیم سے پڑھ کر نکلے تھے؟

سعد نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ پاکستانی خواتین کو مخالف صنف یعنی مردوں سے ہمیشہ مسائل رہتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ وہ ہمیشہ شکایت کرتی ہیں اور وہ شکایات درست بھی ہوسکتی ہیں لیکن جب یہ کہا جائے کہ پاکستان میں خواتین اور مردوں کو الگ الگ تعلیم دو، انہیں اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ 

کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ٹوئٹر پر مولانا طارق جمیل کو بے جا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف غلط زبان استعمال کررہے ہیں۔ ناصر نامی سوشل میڈیا صارف نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا کہ نفرت کرنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا منہ سرف سے دھو لیں کیونکہ وہ آسمان پر تھوک رہے ہیں۔ 

حقیقت کیا ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کے بیان میں موٹر وے واقعے پر مذمت موجود ہے، چنگیز خان کی مثال موجود ہے کہ سخت قانون بنائے جائیں اور معاشرتی وجوہات میں مخلوط تعلیم کا سرسری سا ذکر بھی ہے۔

عوام نے موٹر وے واقعے پر مولانا طارق جمیل کے بیان کا مثبت پہلو دیکھنے کی بجائے مخلوط تعلیم پر تنقید کو یا تو آڑے ہاتھوں لیا یا پھر اسے غلط اور تمام تر برائیوں کی جڑ کہا، جبکہ مخلوط تعلیم مولانا طارق جمیل کا اصل موضوع نہیں تھا۔

من حیث القوم ہمارے ترقی نہ کرنے کی شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مسائل کی اصل جڑ تلاش کرکے اسے دور کرنے کی بجائے بے جا بحث میں الجھ جاتے ہیں۔مخلوط تعلیم پر بحث کی بجائے جنسی زیادتی جیسے واقعات کا حل تلاش کرنا چاہئے۔

Related Posts