عمران خان نے جب 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی قیادت کی تو پوری قوم کے دل جیت لیے اور جب 2018 کا الیکشن جیت کر تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار آئی اور پھر عمران خان وزیر اعظم بنے تو یہ بھی بلاشبہ کسی تاریخی لمحے سے کم نہیں تھا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی ٹیم کے کسی سابق کپتان نے وزیر اعظم جیسے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو کر قوم کی خدمت کی اور اپنے دورِ حکومت میں غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے لازوال اقدامات بھی اٹھائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت بھی بڑھتی ہی چلی گئی۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر عمران خان کی حمایت میں مائنس ون نامنظور کا سوشل میڈیا ٹرینڈ چلایا گیا جس میں پی ٹی آئی کارکنان اور رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کو دیوار سے لگانے کی موجودہ حکومت کی مبینہ کاوشوں پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
کیا واقعی عمران خان کو مائنس کرکے موجودہ حکومت ان کی سیاسی جماعت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دینا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب بد قسمتی سے زیادہ تر مثبت ہی ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے عمران خان جیسے رہنما پر دہشت گردی اور مذہب مخالف مقدمات قائم کرکے کچھ ایسا ہی تاثر قائم کیا ہے۔
گزشتہ روز سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 22 کروڑ لوگوں کو کئی ماہ سے رلایا جارہا ہے۔ لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع نہیں۔ مہنگائی 45 فیصد پر پہنچ گئی۔ بند کمروں کے فیصلوں کی لائف ہے، نہ ہی کوالٹی ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ادارہ جاتی توازن برقرار رکھا جائے۔
تحریکِ انصاف رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس قسم کا فاشزم موجودہ حکومت نے اپوزیشن اور میڈیا کے خلاف روا رکھا ہوا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاہم خود پی ٹی آئی کے دور کو بھی اٹھا کر دیکھا جائے تو صحافی برادری نے کبھی خود کو محفوظ نہیں سمجھا اور میڈیا کی آزادی پر حملے ہوتے رہے۔
بطور سیاسی رہنما عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت تو ضرور کی تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں بطور وزیر اعظم کھل کر حکومت کا موقع نہیں ملا کیونکہ وفاقی حکومت مخلوط بنیادوں پر معرضِ وجود میں آئی اور جب جب عمران خان مرضی کے فیصلے نافذ کرنے لگتے، اتحادی انہیں آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔
اس کی سب سے بڑی مثال ایم کیو ایم (پاکستان) ہے۔ جب عمران خان وعدوں کے باوجود کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھا سکے (اور کیسے اٹھاتے؟ مخلوط حکومت کے تحت انہیں ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اس سے کہیں زیادہ بڑے معاملات دیکھنے تھے) تو ایم کیو ایم نے اپوزیشن سے ہاتھ ملا لیا۔
متحدہ رہنماؤں نے سندھ حکومت سے عہدوں اور کراچی کی تعمیر کیلئے ایک قانونی معاہدے کے عوض پی ٹی آئی حکومت سے اس کی آخری بیساکھی بھی چھین لی جس کے بعد وہ ہوا جو شاید عمران خان جیسے رہنما کے ساتھ کبھی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ تحریکِ عدم اعتماد آئی اور عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آج عمران خان دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کیلئے عام انتخابات کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں تاہم عام انتخابات دور کے ڈھول کی طرح سہانے تو نظر آتے ہیں، ممکن نظر نہیں آتے۔ پھر بھی پی ٹی آئی کے سیاسی قائدین، کارکنان اور ہمدردوں کا سوشل میڈیا پر مائنس ون نامنظور کا نعرہ بہت حد تک حق بجانب ہے۔