فوجی کاروباری افراداور ذمہ داریاں 

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کاحال ہی میں ایک کیس کی سماعت کے دوران کہنا تھا کہ فوج شادی ہال اور شاپنگ مال کیوں قائم کررہی ہے اور ڈی ایچ اے جیسے رہائشی منصوبے کیوں بنارہی ہے؟ ان کی رائے میں یہ فوجی پیشہ ورانہ مہارت یا اس سے متعلق چیزوں کے منافی ہے۔ انہوں نے رواں سال کے شروع میں جاری احکامات میں زور دیا تھاکہ اس طرح کے ڈھانچے کو مسمار کیا جائے اور علاقوں کو بحال کیا جائے۔ کوئی چیف جسٹس کے قانونی نظریے سے زیادہ اختلاف نہیں کرسکتا تھا لیکن صرف نیک نیتی سے قانون کی خلاف ورزی کے علاوہ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔

تھل ، چونیاں ، چھور ، پنوں عاقل اور اسی طرح کے بیرونی چھاؤنیوں میں فوجیوں کے اہل خانہ کے لئے 80 ء کی دہائی سے دکانیں قائم ہیں۔ فوجیوں کے اہل خانہ کو ان کے رہائشی علاقوں میں آسانی سے پہنچنے کے لئے مناسب قیمتوں پر روزانہ استعمال کی اشیاء خریدنے میں مدد کرنا ایک قابل تعریف خیال تھا تاہم یہ نظم و ضبط کے لئے ٹھیک نہیں اور اس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا غلط استعمال ، افرادی قوت کا رخ موڑ نا اور پیشہ ورانہ وقت ضائع کرتے ہوئے خریدوفروخت کا کام سونپا گیا۔ یہ فن فوجی تربیت کے نصاب کا حصہ نہیں تھا ۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے 1983 میں کمانڈنگ آفیسر کا عہدہ سنبھالا تھاتوکوہاٹ میں ایک فوجی یونٹ گیریژن ویلفیئر سینٹر میں جوتوں کی دکان چلا رہا تھا ،حاضر سروس این سی او اور کچھ جوان فرسودہ جوتے فروخت کرنے کی کوشش کرتے دیکھ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی۔

اور مجھے برا بھی لگا ،کچھ عرصے کے لئے ہم نے اس عجیب و غریب کام کو برقرار رکھا اور توقع کے مطابق اس میں بری طرح ناکام ہوگئے اور ہم نے اس طرح کے کاموں سے نجات کیلئے فارمیشن ہیڈ کوارٹر سے مدد کی درخواست کی لیکن بیروکوں میں موچی جیسے عرفی ناموں کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے بڑے منصوبوں میں تبدیل ہوا اور شادی ہالز ، شاپنگ مالز اور گیریژنوں میں دیگر کاروباری کا سلسلہ چل نکلا۔

فارمیشن ہیڈ کوارٹر، بیس کمانڈرز اور پی این ایس ایگزیکٹوز کے زیر انتظام پیشہ ور افراد کا رخ  کاروباری معاملات کی طرف موڑ دیا گیا ، بعض معاملات میں میں کاروباری منصوبوں کے انچارج افسران کو ندامت بھی اٹھانی پڑی اور کچھ ہوشیار افراد نے فائدہ بھی اٹھایا۔

قابل قدر منصوبوں کی وجہ سے لوگوں کا رجحان بڑھا، لوگوں کو اس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ فوج کے زیر نگرانی بننے والے منصوبے شفاف ہونگے تاہم اصل میں ڈی ایچ ایز کو اس طرح کے کاروبار کے ساتھ ایک ساتھ جوڑانہیں جاسکتا۔ یہ کھلی منڈی سے حاصل کی گئی زمینوں پر قائم کی گئیں جو شفاف قوانین کے تحت چلتی ہیں ، متعلقہ سول انتظامیہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور انہیں حقیقی فلاحی اقدامات کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس کی ابتداء جی ایچ کیو کی آرمی ہاؤسنگ اسکیم سے ہوئی تھی جس کا تصور اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر نے پیش کیا جنھوں نے گیریژنوں میں موجود افسران کو مخاطب کرکے اس تصور اور اس کے فوائد کی وضاحت کی اور افسران نے اسے خوشی سے قبول کیا تھا۔ آخر کار یہ ایسی کامیابی بن گئی کہ جی ایچ کیو کو اپنے نظریہ کو شیئر کرنے کے لئے ہندوستانی فوج کے ہیڈکوارٹر سے درخواست موصول ہوئی۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں ڈی ایچ اے میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو صوابدیدی ادارہ بنایا گیا ۔ اس اقدام سے افسروں کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ ختم ہوگئی لیکن غیر منقسم نتیجہ یہ ہوا کہ فوج کو اب ہر افسر کی دیکھ بھال کرنی پڑی اور اس کے بعد دیگر شعبوں کے لئے بھی کام کرنا پڑا۔ اس کا مقصد کیلئے اراضی مطلوب تھی اوراس طرح لاہور اور کراچی میں موجودہ ڈی ایچ اے کی توسیع اور ملتان ، بہاولپور ، کوئٹہ ، اور پشاور میں نئی جگہ پر کام شروع کیا گیا۔یہ اچھے انتظام اور دھوکہ دہی سے پاک ہونے کی وجہ سے غیر منقولہ جائیداد کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔

جی ایچ کیو کے کنٹرول کی وجہ سے ڈی ایچ اے میں بے ضابطگیاں اور غیر منصفانہ تقسیم کا تصور ناپید ہے، کچھ معاملات میں خرابیاں ہوسکتی ہیں لیکن ان چند مسائل کی وجہ سے منصوبوں کی شفافیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا جبکہ این ایل سی اور ایف ڈبلیو او وغیرہ جیسے اقدامات سے مسابقت کا رجحان بڑھا اور جہاں سول مہارت میں کمی آئی وہیں این ایل سی اور ایف ڈبلیو او نے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔

اگر کچھ لوگوں کو یاد ہو تو صدر ضیاء الحق کے دور میں ریلوے ٹریڈ یونینز کی ہڑتال کے وقت این ایل سی کو کراچی بندرگاہ سے گندم کی ترسیل کیلئے استعمال کیا گیا اور این ایل سی نے ریلوے کا مقابلہ کیا اور اپنی تفویض کردہ ذمہ داری کو بخوبی انجام دیااورریلوے اس صدمے سے کبھی نہیں نکل سکااور اسی طرح ایف ڈبلیو او شاہراہ قراقرم کے بطن سے پیدا ہوا اور اس سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے۔

وزارت دفاع کو چھاؤنیوں میں فوجی اراضی پر تجارتی منصوبوں تک سرمایہ کاری کا جائزہ لینے ، انتظامیہ کے لئے قواعد وضع کرنے اور آمدنی کے استعمال کے لئے ایک طاقتور انٹر سروس کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے۔

فوجیوں کی حقیقی فلاح و بہبود اور چھاؤنیوں میں سہولیات کی تشکیل کیلئے جی ایچ کیو ڈی ایچ اے کی توسیع کی بجائے ریٹائرمنٹ کے بعد افسران اور فوجیوں کی ضروریات کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے جدید طریقوں کی کوشش کرسکتا ہے۔

Related Posts