ذرائع ابلاغ اور ان کے تقاضے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

475 قبل مسیح میں پیدا ہونے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے پہلا اجتماعی “ذریعہ ابلاغ” کتاب ہے اور یہ ذریعہ ابلاغ استعمال بھی پہلی بار آسمان سے ہوا، انسان کی لکھی کتابوں کا دور اس کے بہت بعد آیا اور دنیا پر اس وقت بھی راج آسمانی کتب کا ہی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں متروک ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ کوئی اور چیز لے لیتی ہے لیکن کتاب کی یہ کرامت ہے کہ یہ متروک ہوئی ہے نہ ہوگی، کتابیں لکھی گئیں، کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور کتابیں لکھی جاتی رہیں گی۔

ابلاغ کی دوسری بڑی صورت یہ بنی تھی کہ سماج کے بڑے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرتے اور ان سے سماج کے اجتماعی مسائل پر بات کرتے چنانچہ ہم مسلمانوں میں اس نوع پہلا باضابطہ ذریعہ ابلاغ منبر رسول بنا۔

اسی قدیمی دور میں نچلی سطح پر ابلاغ کی صورت یہ بنی کہ دوست احباب اور اہل علم مجلسیں جماتے، یہ والا ذریعہ ابلاغ اپنے آغاز کے ہزارہا سال بعد بھی پرانے کراچی میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ علمی، فکری و ادبی مجالس ویک اینڈ پر شہر بھر میں جمتی تھیں، مثلاً ممتاز قانون دان خالد اسحاق کی لائبریری میں جمنے والی ہفتہ واری مجلس کے تذکرے اب بھی اہل علم کرتے ہیں۔

ایک بے حد اہم ذریعہ ابلاغ جرائد و اخبارات کی صورت آیا، اور اس نے واقعتاً شعور کی ترقی کی رفتار بہت تیز کردی. باخبری انسان کے لئے ہمیشہ سے اہم تر رہا ہے. چنانچہ آدم علیہ السلام کو ان کی تخلیق کے بعد اللہ نے کچھ خبریں ہی دیں، مثلاً”اس درخت سے دور رہنا ورنہ…..”

اور پھر زمین پر بھیجنے سے عین قبل مستقبل کی خبروں کا ایک پورا پیکیج، چنانچہ انبیاء علیھم السلام کی ذمہ داری بھی خبر دینے کی ہی رہی ہے، وہ “خبر” جو خدا کے باغی کو پسند نہیں۔

چنانچہ جرائد و اخبار کے ذریعے یہ ہوا کہ انسان کو اس کی دنیا کی ہر چھوٹی بڑی خبر ملنے لگی، جس سے زندگی کی رفتار بڑھ گئی اور اقوام عالم میں مسابقت کا عمل بہت تیز ہوگیا۔

اکیسویں صدی آئی تو یہ اپنے تقریبا عین آغاز پر ہی ایک نیا ذریعہ ابلاغ لے آئی، جسے سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔

اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب 475 قبل مسیح میں پیدا ہوکر اسی دور کے پلیٹ فارم رہ جانے والے ایک نکتہ سمجھ لیں، ہر ذریعہ ابلاغ کا اپنا الگ اسلوب، لب و لہجہ، اور ماحول رہا ہے۔

کتاب والے ذریعہ ابلاغ میں جواب کتاب ہی کی صورت آتا. اور یہ جواب سوالات سے بھرپور ہوتا بھی اور ہوتا ہے بھی. اس ذریعہ ابلاغ کا کوئی ایک اسلوب نہیں. پہلی آسمانی کتاب سے لے کر جعفر زٹلی کے مجموعے تک ہر رنگ اور آہنگ کی کتاب موجود ہے۔

منبر والے ذریعہ ابلاغ میں بولنے والا بولتا ہے، کراس ٹاک کا باقاعدہ رواج نہیں کیونکہ اللہ کا گھر ہے، یہ رواج پڑ گیا تو جلد نوبت اس گھر کی حرمت پامال ہونے کی آجائے گی، البتہ کچھ اہم ترین مواقع پر کراس ٹاک ہوئی بھی ہے اور ہو بھی سکتی ہے، لیکن ایک اہم چیز یہ کہ منبر پر کھڑے یا بیٹھ کر بولنے والے کو اپنی زبان بے حد محتاط رکھنی پڑتی ہے. کیوں؟ کیونکہ اللہ کا گھر ہے. گویا اس ذریعہ ابلاغ کا اصول زبان کو قابو میں رکھنا ہے۔

مجالس والے ذریعہ ابلاغ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے. مجلس میں پہلے مرکزی ہستی بولتی ہے پھر باقی شرکاء بھی شریک گفتگو ہو جاتے ہیں. اور یہاں گفتگو ہوتی بھی بے تکلف اور آزاد ہے. فحش گالی کے سوا ہر طرح کی جملے بازی ہوتی ہے۔

جرائد و اخبارات والے ذریعہ ابلاغ کا مسئلہ چونکہ یہ تھا کہ یہ گھر گھر جاتے ہیں، جہاں ہر عمر کے بچے بھی ہوتے ہیں اور اخبار کی رسائی بھی لاکھوں انسانوں تک ہوتی ہے، جن میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں. سو طے پایا کہ مجلس والی بے تکلف و ازاد گفتگو یہاں نہیں رکھی جائے گی. یہاں زبان محتاط رکھی جائے گی۔

سوشل میڈیا والا ذریعہ ابلاغ ابھی اپنے بچپن میں ہے لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ یہ مسجد بھی نہیں، یہ اخبار کی طرح بچوں کی رسائی میں بھی نہیں. اور یہ ہے بھی مجلس والے ذریعہ ابلاغ سے یوں قریب تر کہ پہلے ہر صاحبِ وال پوسٹ کی صورت اپنی بات کہتا ہے، پھر اس کے رفقائے فیس بک بھی گفتگو میں شریک ہوجاتے ہیں۔

اگر مجلس سے اس کی کوئی چیز مختلف ہے تو بس یہ کہ شرکاء ایک چھت تلے روبرو نہیں ہوتے. لھذا یہاں مسجد و اخبار والے نہیں بلکہ مجلس والے آداب لاگو ہوں گے چنانچہ یہاں کامیاب بھی وہی ہیں جو اس راز کو سمجھتے ہیں. فیس بک پر جس نے بھی مسجد یا جریدہ و اخبار والا ماحول لاگو کرنے کی کوشش کی وہ کتنا ہی بڑا علامہ کیوں نہ ہوا فیل ہوا ہے. یہاں ہم جیسے تر زبان ہی کامیاب ہیں، جو فحش گالی تو نہیں دیتے لیکن مجلس کا ماحول بے تکلف و آزاد رکھنے کا راز جانتے ہیں۔

سو اے جنم شدگان 475 قبل مسیح ! ہر ذریعہ ابلاغ ہی دوسرے سے مختلف نہیں، بلکہ ان کے اسالیب، تقاضے اور آداب بھی ایک نہیں ہیں۔

Related Posts