آزاد کشمیر کے بیشتر اضلاع میں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور اس وقت مظاہرین مختلف انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔
ہفتے کی سہ پہر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد مختلف اضلاع سے مظاہرین نے پاکستان کو کشمیر سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ کا آغاز کر دیا تھا۔
اردو نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے گزشتہ ڈیڑھ برس سے کشمیر میں حکومت مخالف تحریک جاری ہے۔ رواں برس مئی میں حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں شامل کچھ مطالبات کو منظور کر لیا تھا۔
اس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی دیگر مطالبات کے لیے سرگرم رہی لیکن ایک ماہ قبل 30 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے لائے گئے ایک صدارتی آرڈیننس کے بعد کشمیر میں ایک مرتبہ پھر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔
شام کا کونسا صوبہ کس کے کنٹرول میں ہے، نقشے کی مدد سے پوری تفصیل
اس دوران آل پارٹیز رابطہ کمیٹی کے نام سے ایک اور پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا گیا جس نے مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن کے مختلف شہروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس مظاہروں کے دوران کئی مظاہرین گرفتار کیے گئے۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے نومبر میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس ’متنازع صدارتی آریننس کو فوری طور پر منسوخ اور اس کے تحت گرفتار کیے افراد کو رہا کیا جائے۔‘
عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبات منظور نہ ہونے پر 5 دسمبر کے بعد پورے کشمیر میں غیرمعینہ مدت تک شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔
دو دن کی ہڑتال کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رکن شوکت نواز نے حکومت کو سات دسمبر دن 11 بجے تک وقت دیا تھا اور اعلان کیا تھا اس کے بعد مظاہرین انٹری پوائنٹس کی جانب مارچ شروع کر دیں گے۔
گزشتہ شب اور سنیچر کی دوپہر حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد مختلف اضلاع سے مظاہرین کے قافلے انٹری پوائنٹس کی جانب بڑھنے لگے۔