لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے طالبہ سے زیادتی پر تحقیقات کا حکم دے دیا تاہم صوبائی حکومت گزشتہ روز طلبہ کے احتجاج پر قابو نہیں پاسکی۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور کے نجی کالج میں زیادتی کے واقعے کی تحقیقات کیلئے 7 رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی جسے 2روز میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی۔ چیف سیکریٹری پنجاب اعلیٰ سطحی کمیٹی کے کنوینر ہیں جبکہ اس سے ایک روز قبل اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھی واقعے کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں۔
احتجاج اور جھڑپیں
گزشتہ روز تمام علاقہ میدانِ جنگ بنا رہا۔ ایک جانب طلبہ نے نجی کالج کیمپس میں توڑ پھوڑ کی تو دوسری جانب پولیس نے مظاہرین پر ڈنڈے برسائے اور لاٹھی چارج کیا۔ متعدد زخمی طلبہ اسپتال منتقل کردئیے گئے، جس سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ پولیس نے احتجاج کو کنٹرول کرنے کیلئے تشدد کا سہارا لیا جس پر مظاہرین مشتعل ہوگئے، تاہم واقعے کا دوسرا پہلو بھی سامنے آسکتا ہے۔
طالبہ سے زیادتی کا واقعہ
چند ہی روز قبل ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے کی رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب انٹرمیڈیٹ سطح کی ایک ٹیچر نے کلاس روم میں طالبہ کے کلاس فیلوز سے غیر حاضری کے متعلق پوچھا۔ بعض کلاس فیلوز نے لڑکی سے رابطے کی کوشش کی تو نمبر بند نکلا۔
نجی ٹی وی وی نیوز کی رپورٹ کے مطابق طالبہ کے والدین سے رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ کالج کے گارڈ نے طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی جس کے بعد نوجوان طالبہ آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔ واقعے کے بعد گارڈ جائے وقوعہ سے فرار ہوگیا تھا، تاہم پولیس نے ملزم کو سرگودھا سے گرفتار کرلیا۔
سڑکیں بند کرنے کا الٹی میٹم
آج طلبہ نے سڑکیں بند کرنے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے اور اگر طلبہ نے ایسا کرنے کی کوشش کی جس پر پولیس کی جانب سے ایک بار پھر مزاحمت اور لاٹھی چارج کا سلسلہ شروع ہوا تو لاہور کے متعدد علاقے ایک بار پھر میدانِ جنگ بن سکتے ہیں۔
نوجوان طلبہ کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں جو طالبہ سے زیادتی کے واقعے پر مشتعل ہیں۔ اس وقت سیاسی قیادت اور خاص طور پر پنجاب حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ احتجاج کنٹرول کرنے کیلئے طلبہ کو ڈنڈوں سے مارنے کی بجائے مذاکرات کرنا ہوں گے کیونکہ اگر حکومت طالبہ سے زیادتی کرنے والے مجرم کو پکڑنے کیلئے سنجیدہ ہے تو احتجاج کرنے والے طلبہ کی بھی یہی خواہش ہے۔