ملک بھر میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز ملک چھوڑ دیں گی اور کم از کم 3 وفاقی وزراء یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بیرونِ ملک جانے کی اجازت طلب کرنے کیلئے درخواست دائر کررکھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مریم نواز کو ایک معمولی سے آپریشن سے گزرنا ہے جو پاکستان میں نہیں کیا جاتا۔
تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت مریم نواز کی درخواست پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے اور وزیرِ اعظم نے مذکورہ درخواست کو مبینہ طور پر رد کردیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ مریم نواز حکومت مخالف تحریک جاری رکھ سکتی ہیں جس کیلئے انہیں ملک میں ہی رہنا پڑے گا۔ تاہم ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے یہ اشارہ دیا کہ وہ اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کیلئے حکومت سے درخواست نہیں کریں گی جس سے پتہ چلتا ہے کہ غالباً مریم نواز عدالتوں سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو حتمی فیصلہ جاری کرسکیں۔
ماضی قریب میں وفاقی حکومت کو ایک بڑی شرمندگی کا سامنا اس وقت ہوا جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو علاج معالجے کے بہانے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی گئی جو آج تک واپس نہیں آئے۔ نواز شریف نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے ایک زبردست احتجاجی مہم چھیڑ دی جس کے دوران ریاستی اداروں اور پاک فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب تک نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پیشرفت نہیں ہوئی اور حکومت نے سابق وزیرِ اعظم کے پاسپورٹ کی تجدید نہ کرنے کا سخت فیصلہ کیا جس کے باعث نواز شریف کے اختیارات محدود تو ضرور ہوئے تاہم ان کی جلد وطن واپسی کا کوئی امکان تاحال نظر نہیں آتا۔
نواز شریف کی دھوکہ دہی سے بری طرح متاثرہ وفاقی حکومت مریم نواز کی بھی وہی درخواست قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز پی ڈی ایم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر بیرونِ ملک جانے کی خواہش مند کیوں ہیں؟ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اہم اقدام اٹھاتے ہوئے سینیٹ انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور مشترکہ حکمتِ عملی کی بجائے علیحدہ امیدوار بھی کھڑے کیے گئے۔ مریم نواز حکومت گرانے کیلئے پی ڈی ایم کے اہداف پر عملدرآمد کے حوالے سے مایوسی کا شکار نظر آتی ہیں اور اب کسی بیرونی حکمتِ عملی پر غور کر رہی ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے بعد پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے، اس کے باوجود اپوزیشن اتحاد کا مستقبل غیر یقینی ہے کیونکہ اگر مریم نواز بھی منظر نامے سے غائب ہو گئیں تو یقیناً یہ پی ڈی ایم کیلئے سیاسی موت ہوگی جو مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی طرف سے حکومت کے خلاف بیان بازی جاری رہنے کا کوئی امکان نہیں۔ مریم نواز سمجھتی ہیں کہ نوازشریف اور شہباز شریف کی غیر موجودگی میں پنجاب یتیم ہوگیا ہے، حالانکہ یہ مسلم لیگ (ن) ہے جس کا وجود شریف برادران کی موجودگی کے بغیر اپنا جواز کھو رہا ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم عمران خان مریم نواز کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہ دینے پر بضد ہیں تاہم اگر اپوزیشن اتحاد ٹوٹ جائے اور وزیرِ اعظم کی انتہائی سخت نقاد مریم نواز کو خاموش کر دیا جائے تو اس سے عمران خان کے بیانیے کو بھی تقویت ملے گی۔