سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع گڑھی خدا بخش میں مریم نواز کی موجودگی یقینا غیر معمولی ہوگی، بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب کو پیپلز پارٹی کی جانب سے احتجاجی تحریک کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان گذشتہ تین دہائیوں کے دوران زیادہ تر دشمنی دیکھنے کو ملی ہے، لیکن اقتدار کے حصول میں تیسرے فریق کی موجودگی نے انہیں پریشان کردیا ہے۔ صرف دو سال کے عرصے میں، اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان پر بد عنوانیوں کے الزامات لگائے اور تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کیاگیا، اپوزیشن کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ اس منصب کے لئے اہل نہیں ہیں۔
1990 کی دہائی کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کس طرح دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیں۔ یہاں تک کہ نواز شریف نے دو موقعوں پر بینظیر بھٹو کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ سیاستدانوں نے حکومت کو گرانے کے لئے لفظی طور پر بھی اپنا ضمیر بیچا، آخر کار دوسری طاقتوں نے حکومت کو سنبھالا اور مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا، دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ اسٹیج پر آنے سے پہلے اپنا ماضی بھی یاد رکھنا چاہئے۔
دونوں جماعتیں نوجوان نسل کے اقتدار میں ہیں۔ مریم (ن) لیگ کے ساتھ اور بلاول پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ نواز شریف اور زرداری پارٹی پالیسیاں چلانے کے بجائے سرپرست کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کو دونوں جماعتوں کے مابین تلخی دشمنی اور عداوت کو سمجھنا چاہئے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ ماضی کی سیاست سے سبق سیکھ لیا ہے اور مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے۔ یہاں تک کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے بھی جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف متحد ہوکر جمہوریت کو بحال کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ کہاوت مشہور ہے کہ کمزور جمہوریت مضبوط آمریت سے بہتر تھی۔
انہیں بہت جلد یہ احساس ہوگیا کہ کسی بھی قیمت پر جمہوری حکومت کو پٹڑی سے اتارناچاہئے، سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت اس سے مختلف ہے۔ یہ یقینی طور پر جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے جو انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئی جس میں تمام جماعتوں نے حصہ لیا۔ اپوزیشن کو ملک میں جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
یہ سب کچھ ذاتی مفادات کے لئے کیا جارہا ہے، جس کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتیں ایک ہی پلیٹ فارم آگئی ہیں، کیونکہ دونوں جماعتوں کو زیادہ دیر اقتدار سے باہر رہنا مشکل لگتا ہے۔ جب مریم نواز بھٹو خاندان کے عظیم الشان مزار کے باہر اسٹیج پر قدم رکھیں گی تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ پاکستان میں کس طرح وقت اور سیاست میں تبدیلی آتی ہے۔