تعلیم کا عالمی دن اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کے چشم کشا اعدادوشمار

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
تعلیم کا عالمی دن اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کے چشم کشا اعدادوشمار
تعلیم کا عالمی دن اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کے چشم کشا اعدادوشمار

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا بھر میں تعلیم کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جبکہ علم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔

آئیے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں تعلیم کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف ممالک میں تعلیم کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اور پاکستان کو ایسے کون سے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ ہم بھی عالمی سطح پر ایک ترقی یافتہ قوم بن کر سامنے آسکیں۔

دنیا بھر میں تعلیم کے اعدادوشمار

زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں تعلیم مفت نہیں دی جاتی۔ کتابیں، یونیفارم اور بعض ممالک میں تو اساتذہ کی تنخواہوں کا بوجھ بھی طلباء کے اہلِ خانہ پر ڈالا جاتا ہے۔

دنیا کے 6 کروڑ 70 لاکھ بچے جن کی عمریں پرائمری اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے موزوں سمجھی جاسکتی ہیں، انہیں تعلیم کا حق حاصل نہیں کیونکہ یا تو وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگتے ہیں یا پھر والدین کی غریبی کے باعث آوارہ گردی اور بعض اوقات بھیک مانگنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

براعظم افریقہ میں 18 سال اور اس سے کم عمر افراد کی شرحِ خواندگی 50 فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔ جنوبی امریکا اور یورپی ممالک میں شرحِ خواندگی 90 سے 100 فیصد تک ہوتی ہے۔ 

اسکولوں میں دنیا بھر کے 11 کروڑ 50 لاکھ بچے ابتدائی تعلیم کیلئے داخل ہی نہیں ہوتے۔ پرائمری اور بعض اوقات مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 22 کروڑ 60 لاکھ بچے سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل نہیں کرتے، اس لیے ایسے بچوں کی تعلیم صرف بنیادی جمع تفریق اور پڑھنے لکھنے کی حد تک محدود ہوتی ہے اور بعض اوقات ان صلاحیتوں سے بھی کسی نہ کسی حد تک محروم رہ جاتے ہیں۔

خواتین میں ناخواندگی کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ 20 سے زائد ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کی شرحِ ناخواندگی 70 فیصد سے بھی زائد ہے یعنی 30 فیصد سے کم خواتین پڑھنے لکھنے کے قابل رہ جاتی ہیں۔

جو 6 کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول جانے کی عمر میں داخلہ نہیں لے سکتے، ان کی 53 فیصد تعداد لڑکیوں پر مشتمل ہے جبکہ 22 کروڑ 60 لاکھ بچے جو ثانوی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، ان میں سے 52 فیصد لڑکیاں ہیں۔

حیرت انگیز طور پر ایک طرف تو لڑکیاں زیادہ تر اسکول نہیں جاتیں اور تعلیم حاصل نہیں کرتیں تاہم جو لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان پر زیادہ گمان فیل ہو کر تعلیمی سال دہرانے یا پھر اسکول چھوڑ دینے کا ہوتا ہے کیونکہ انہیں معاشی مسائل درپیش رہتے ہیں اور تعلیم میں بعض اوقات غریبی یا دیگر وجوہات کے باعث دل نہیں لگتا۔

ایتھوپیا نامی ملک میں ایک تعلیمی منصوبے پر عملدرآمد ہوا جس کی مدد سے بچیوں کی اسکولوں میں داخلے کی شرح پر زبردست کام ہوا۔ 1999ء میں 40 فیصد شرحِ داخلہ 2008ء تک 90 فیصد تک جا پہنچی۔ 

کچھ ایسی ہی صورتحال برکینا فاسو میں رہی جہاں حکومت نے بچیوں کی تعلیمی صورتحال پریشان کن سے ترقی پذیر کی اور ایسا صرف 2 برس میں کیا گیا۔ 2002ء سے لے کر 2008ء تک اسکولوں میں لڑکیوں کی شرحِ داخلہ 73 فیصد تک لائی گئی۔

علم حاصل کرنے کے فوائد 

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم کی اہمیت سے واقفیت نہ رکھتے ہوں کیونکہ علم رکھنے والے لوگ اس کا فائدہ اٹھا کر اور جاہل افراد اس سے محروم رہ کر کسی نہ کسی سطح پر اس کی اہمیت کو ضرور سمجھ جاتے ہیں، یہ الگ بات کہ وہ اسے اپنے الفاظ میں بیان نہ کرسکیں۔

خواتین کو علم حاصل کرنے کا سب سے بڑا فائدہ جرائم بالخصوص جنسی زیادتی، اغواء اور نت نئی بیماریوں سے تحفظ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ علم حاصل کرنے والی خواتین ایچ آئی وی، ہیومن ٹریفکنگ اور دیگر جرائم سے زیادہ بہتر طور پر محفوظ رہنا جانتی ہیں۔

دلچسپ بات یہ  بھی ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کو منصوبہ بندی کے اصول سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین شادی زیادہ عمر میں کرتی ہیں اور ان کے بچے ناخواندہ خواتین کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ تعلیم چھوت کی بیماریاں پھیلنے سے روکتی ہے کیونکہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر کا علم ہوتا ہے۔

خواندہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچے غذائیت کی کمی یا خرابئ غذا و صحت کا شکار کم ہوتے ہیں کیونکہ ماؤں کو بچوں کے بارے میں تعلیمی مواد مل جاتا ہے جسے وہ پڑھ کر اس پر عمل کرتی ہیں۔ ماؤں کو علم دینے کا ہر تعلیمی سال بچوں کی شرحِ اموات میں 2 فیصد تک کمی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کا ہر سال کسی بھی شخص کی مستقبل کی آمدنی میں 10 فیصد اضافے کا باعث بنتا ہے۔مردوں کی طرح خواتین میں بھی ہر تعلیمی سال کے ساتھ مستقبل میں معاشی صورتحال 10 سے 20 فیصد تک بہتر کی جاسکتی ہے۔ 

کام کرکے روزی کمانے والی خواتین اپنی آمدنی کا 90 فیصد زیادہ تر اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرتی ہیں جبکہ دنیا بھر میں مردوں کیلئے یہ شرح اوسطاً 30 سے 40 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ 

پاکستان میں تعلیمی صورتحال

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہےکہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے۔ یہاں 2 کروڑ 28 لاکھ بچے جن کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول میں داخل ہی نہیں ہوتے۔

یہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی وہ تعداد ہے جو اس عمر کی مجموعی آبادی کا 44 فیصد بنتی ہےجبکہ 5 سے 9 سال کے ایج گروپ میں 50 لاکھ بچے اسکول کا رخ نہیں کرتے۔

آگے دیکھئے تو 10 سے 14 سال کے 1 کروڑ 14 لاکھ بچے رسمی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ سندھ میں 52 فیصد غریب بچے جن میں سے 58 فیصد لڑکیاں ہیں، اسکول میں داخلہ نہیں لیتے۔ بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں اسکول کا رخ نہیں کرتیں۔

ملک بھر میں تقریباً 1 کروڑ 7 لاکھ لڑکے اور 86 لاکھ لڑکیاں پرائمری سطح کی تعلیم کیلئے اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں جو لوئر سیکنڈری کی سطح پر آ کر 36 لاکھ لڑکوں اور 28 لاکھ لڑکیوں پر مشتمل رہ جاتے ہیں یعنی 71 لاکھ لڑکے اور 58 لاکھ لڑکیاں پرائمری کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کرتے۔

تمام تر مسائل کا حل

وفاقی و صوبائی حکومتیں عموماً تعلیمی مسائل کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ کورونا وباء کے باعث گزشتہ برس سے اب تک مہینوں تعلیمی ادارے بند رہے جنہیں مرحلہ وار کھولا جارہا ہے۔

وعدے اور دعوے ہر نئی حکومت کرتی ہے لیکن موجودہ پی ٹی آئی حکومت سمیت کوئی بھی ملک کے پسماندہ اور غریب طبقے کو تعلیم مہیا کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔

وفاقی حکومت نے سن 2020ء میں پیش کردہ بجٹ میں تعلیم کیلئے 83 ارب 30 کروڑ کی رقم مختص کی جو گزشتہ بجٹ سے 2 اعشاریہ 5 فیصد زائد ہے۔ قبل ازیں 81 ارب 20 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔

حکومت نے جی ڈی پی کا 2 اعشاریہ 30 فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا جو خطے میں سب سے کم بجٹ ہے۔ عالمی سطح پر کل بجٹ کا 15 سے 20 فیصد اور جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

اس لیے حکومتِ پاکستان کو چاہئے کہ اعدادوشمار کا ہیر پھیر دکھا کر عوام کو طفل تسلیاں دینے کی بجائے جی ڈی پی کا خاطر خواہ حصہ (کم از کم 4 فیصد) تعلیم کیلئے مختص کرے اور گھوسٹ تعلیمی اداروں، گھوسٹ ملازمین اور وڈیروں کی اوطاقوں میں تبدیل ہوجانے والے اسکولوں کی حالتِ زار پر توجہ دے کیونکہ قوم کو ملنے والی بہتر تعلیم سے ہی پاکستان کا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔