حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف میں سے ایک وصف حلیم بیان فرمایا ہے کیونکہ آپ دوسروں کو معاف کردینے میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہم زندگی کے اہم اسباق سیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جو ان کی مخالفت، اظہارِ نفرت، ظلم اور قتل کی دھمکیوں سے کیا کرتے تھے۔ نیز قرآنِ پاک کے سب سے بڑے اسباق میں سے ایک اہم سبق آپ کی حیاتِ مبارکہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم وہ واحد پیغمبر ہیں جن کے ذکر کے بعد ہم اپنی نماز میں حضور ﷺ کا ذکر کرتے ہیں جب ہم درودِ ابراہیمی پڑھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اے اللہ اپنے فضل و کرم کو محمد اور آلِ محمد ﷺ پر نازل فرما جیسا کہ تو نے اپنا فضل و کرم حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر کیا تھا۔ بے شک تو قابلِ تعریف اور بہت عزت والا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کیے رکھا جو ایسا اہم سبق ہے جو پوری امت آپ سے سیکھ سکتی ہے کیونکہ آپ اللہ کے ہر حکم کی تعمیل میں لگ جاتے تھے چاہے وہ کتنا ہی سخت اور جان مصیبت میں ڈال دینے والا حکم ہی کیوں نہ ہو۔ جنگل میں اپنے اہلِ خانہ کو صرف اللہ کے سہارے چھوڑنے سے لے کر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو اپنے ہاتھوں سے قربان کرنے تک حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اللہ پر بھروسہ اور اللہ سے ہی محبت فرمائی جس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو تقویٰ کا بہترین اجر عطا فرمایا۔

قصۂ ابراہیمی ہمیں معاشرتی جمود اور ٹھہراؤ کو چیلنج کرنے کا درس دیتا ہے۔ آپ کی محبت، ایمان اور اللہ پر بھروسے کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے سوچ سمجھ کر اور حکمتِ عملی سے احکامات کو قبول نہیں کیا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بتوں کی پوجا سے سخت خائف تھے، اور آپ کا کنبہ اور رشتہ دار برسہا برس سے یہی کرتے آرہے تھے۔ آپ نے اپنے ہی معاشرے اور اہلِ خانہ کو للکارا اور اس بات کی دعوت دی کہ وہ اللہ کی صفات پر غور کریں۔ بنیادی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ سیکھنے سکھانے، راہِ حق اور علم کی تلاش کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

ایک اور اہم سبق جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ سے سیکھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ حق کے راستے پر ثابت قدم رہا جائے، بت پرستی کو مسترد کرنے کی وجہ سے آپ کے والد (بعض روایات کے مطابق آزر آپ کا چچا تھا اور عربی میں دونوں رشتوں کیلئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے) سمیت دیگر لوگوں نے آپ کی سختی سے مخالفت کی لیکن ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پر توکل کیا اور یہ توکل اس وقت بھی برقرار رہا جب لوگوں نے آپ کو زندہ جلا دینے کی کوشش کی۔

اپنی آواز کو بلند نہ کرنا اور اپنے والدین یا سرپرستوں کو منفی جواب نہ دینا بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وطیرہ رہا ہے اور یہ سبق بھی ہم آپ سے سیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے کہ: اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔(سورۂ اسراء، آیت نمبر 23)

آئیے اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ باتوں پر غور کرتے ہیں۔ ہم میں سے کسی کا بھی والد یا چچا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کی طرح بت پرست نہیں ہوگا لیکن آپ نے دعا فرمائی کہ : اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے۔لہٰذا جب ہمیں شیطان مجبور کرتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ برا سلوک کریں تو ہمیں اپنا دل کھلا رکھنا چاہئے۔ جب شیطان ہمارے دلوں میں نفرت ڈالنے کی کوشش کرے تو ہمیں چاہئے کہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

تقسیم کی روش ہمیں ایک دوسرے سے اور بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ سے الگ کردیتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ایک اور اہم سبق یہ ہے کہ اپنے دل میں کسی کیلئے نفرت اور بغض رکھنے سے دراصل ہم اللہ کی مغفرت اور رحمت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔

قرآنِ مجید کی بے حد طاقتور آیت سورۂ نور میں ہے جس میں فرمایا گیا کہ: اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے، اور انہیں معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔اس آیت کا سیاق و سباق حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دور میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اس کی دلیل فراہم کرتی ہے۔

آپ کی پوری حیاتِ مبارکہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح مہربان اور بڑا دل رکھنے کا درس دیتی ہے اور اگر ہم اللہ کی مغفرت چاہتے ہیں تو ہم میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کریں۔

میں نے یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے چند اسباق پر روشنی ڈالی ہے لیکن بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں آپ کی حیاتِ مبارکہ سے سیکھ کر اپنی زندگی میں اپنایا جاسکتا ہے۔جتنا زیادہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پرنظر ڈالتے ہیں، اتنا ہی ہمیں قرآن سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم بڑھ جاتی ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی زندگیوں کو بہتر طریقے سے گزارنے کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔