لیول پلیئنگ فیلڈ انگریزی زبان کے 3 الفاظ نہیں بلکہ ایک ایسا محاورہ ہے جس سے مراد مسابقتی ماحول میں مساویانہ فضا ہے اور حال ہی میں اس کا مطالبہ پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیا گیا۔
مساویانہ فضا کیا ہے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے تمام امیدواروں سے ہر 5 سال بعد (اگر وزیراعظم کو تحریکِ عدم اعتماد لا کر یا دیگر مسائل کے باعث وقت سے قبل خدا حافظ نہ کہہ دیا گیا ہو تو) آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا وعدہ کرتا ہے۔
یہی وہ لیوی پلیئنگ فیلڈ ہے جو ہر سیاسی جماعت کو چاہئے۔ عموماً لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح مختلف سیاق و سباق کے ساتھ کھیل، کاروبار، سیاست اور سماجی معاملات میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور قومی مسائل میں بھی اس کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔
جب لیول پلیئنگ فیلڈ دی جاتی ہے تو یہ یقینی بنانا لازمی ہوجاتا ہے کہ کسی بھی شخص یا جماعت کو غیر ضروری فوائد نہ پہنچنے دئیے جائیں، نہ ہی کسی شخص کو بلا ضرورت تنگ کیا جائے اور تحریکِ انصاف نے الیکشن سے قبل لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا شکوہ متعدد بار کیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اعلیٰ حکام اور الیکشن کمیشن کو تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو تنگ نہ کرنے اور شکایات دور کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے۔ پی ٹی آئی امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے۔
قبل ازیں متعدد پی ٹی آئی امیدواروں کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے نہ دینے کی شکایات موصول ہوئیں، درجنوں سیاسی رہنماؤں نے کہا کہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی یا تو چھین لیے گئے یا پھر ان پر بے جا دست درازی کی کوشش کی گئی جو قابلِ قبول نہیں۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی لاء کمیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی درخواست چھینے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، حکومت اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کیا۔
اس دوران پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی ایم پی او کے آرڈر جاری ہورہے ہیں، نہ تو ہمارے امیدواروں کو کاغذات مل رہے ہیں اور نہ ہی جمع کرانے دیا جاتا ہے۔ عدالت نے تمام شکایات حل کرنے کی ہدایت کردی۔
ایک موقعے پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتوں کو شکایات ہیں، ایک سیاسی جماعت کو الگ کیوں ڈیل کیاجاتا ہے؟ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب سب کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔ تحریکِ انصاف کے رہنما آج ہی الیکشن کمیشن سے ملاقات کریں۔
عدالت ن الیکشن کمیشن کو تمام شکایات سن کر ازالے کی ہدایات کیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو تعاون کی یقین دہانی کرادی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے آرڈر جاری ہونے کے باوجود بھی کیا پی ٹی آئی رہنماؤں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جائے گی۔
بڑی تبدیلی یہ آئی کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے، جس کی سربراہی قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان نے کی، سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت 10، 10 لاکھ کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔
سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے نگران حکومت کیلئے ایک دھچکا ثابت ہوسکتا ہے جس نے تاحال گزشتہ شہباز شریف حکومت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 9 مئی واقعات کو بہانہ بنا کر لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا نہیں کی۔
ظاہر ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کے پیچھے صرف نگران حکومت نہیں ہوسکتی، اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر محرکات بھی ہوسکتے ہیں، تاہم تکنیکی اعتبار سے کسی بھی ملک میں انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔