لبنان میں ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد موبائل فونز اور لیپ ٹاپس میں دھماکوں کے کافی دور رس نتائج ہوسکتے ہیں، بدلتی دنیا اور جدت کی وجہ سے آج ایسے آلات کو تباہ کاری کیلئے استعمال میں لانا ممکن ہے۔ اس حوالے سے تحقیق موجود ہے کہ موبائل فون، پیجر اور دیگر ڈیوائسز میں موجود بیٹری کو معمولی سے تبدیلی اور ہیکنگ کے بعد دھماکہ خیز مواد میں بدلا جاسکتا ہے ۔
اسرائیلی وزیراعظم نے واضح اعلان کیا ہے کہ لبنان کے جنوبی علاقے پر قبضہ کئے بغیر حزب اللہ کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے لبنان کے جنوبی علاقوں کی طرف اسرائیل کی پیش قدمی کی تیاری جاری ہے۔
موجودہ حالات میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کی دھمکی کو بھی نظر انداز کرنا دانائی نہیں جس سے کہ مزید حملے کئے جاسکتے ہیں، بینجمن نتن یاہو نے ڈیوائسز کے دھماکوں کے فوری بعد دھمکی دی ہے کہ ہمارے پاس ایسی مزید ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے مزید تباہی کے خدشات واضح ہیں۔
دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، اس وقت دنیا میں ایسے جدید اور چھوٹے آلات تیار ہوچکے ہیں جیسا کہ مچھر نما چھوٹے سے روبوٹ کے ذریعے کسی بھی دشمن کو بائیو کیمیکل کے ذریعے نشانہ بناکر کلر پوائزن داخل کرنا بھی ممکن ہے اور یہ ٹیکنالوجی اتنی جدید ہے کہ یہ مچھر صرف اپنے مخصوص ہدف کو ہی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسرائیل نے دہشت گردی اور شدت پسندی کو ایک نیا رخ دیدیا ہے اور اگر اس طرح کے حملوں کی عادت پڑ گئی تو دنیا کا کوئی بھی شخص ان سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
اس وقت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا کردار بہت اہم ہوچکا ہے کیونکہ اگر سلامتی کونسل فوری ان واقعات پر اپنا ردعمل نہیں دیتی اور اسرائیل کے شرمناک عمل پر آنکھیں بند رکھی گئیں تو دوسرے ممالک کو بھی شہ مل جائیگی جس کے ناصرف خطے بلکہ پوری دنیا پر ہولناک اثرات مرتب ہونگے۔
اسرائیل ایک طرف تو شب و روز غزہ میں بمباری کرکے 41 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرچکاہے اور دوسری طرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانی زندگیوں سے کھیل رہا ہے اور پورے خطے میں ایک سراسیمگی پھیلانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اسرائیل کے مقابلے میں دیگر ممالک پر نظر ڈالیں کہ جو گھنٹوں میں ایسے ہتھیار اور آلات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر وہ بھی ایسے آلات بنانے کیلئے میدان میں آگئے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہونگے۔
بے لگام اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے خطہ پہلے ہی آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے، حماس اور حزب اللہ کے علاوہ ایران کے ساتھ اسرائیل کی کشیدگی کے باوجود او آئی سی کے 57 ممبر ممالک ایک خوف اور سراسیمگی میں مبتلا ہیں ۔
یہ معاملہ او آئی سی کے 57 ممالک کے سامنے بار بار چیلنج بن کر آتا رہے گا کیونکہ جب تک یہ او آئی سی کے ممبر ممالک عالمی پلیٹ فارمز سے اسرائیل کی منہ زور اور دہشت گردی کو نکیل ڈالنے کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھائینگے تب تک اسرائیل کے بڑھتے قدم روکنا ناممکن ہوگا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار نہ کرنے کا بیان خوش آئند ہے، اس وقت حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام درد دل رکھنے والے اسلامی ممالک اسرائیل سے تعلقات میں دوری برقرار رکھیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانے اور ابراہم اکارڈ کی طرف پیش قدمی مسلمان سربراہان مملکت کیلئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
آنے والے وقت میں جغرافیائی منظر نامہ بھی تبدیل ہوسکتا ہے کیونکہ روس بھی ان حالات میں خود کو زیادہ دیر دور نہیں رکھ سکتا۔ روس لبنان میں مدد فراہم کررہا ہے اس وجہ سے یوکرین جنگ کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے روس کو چاہتے نہ چاہتے سامنے آنا پڑے گا۔
پیجر دھماکوں میں ایران کے سفیر کے زخمی ہونے کے بعد ایران کے پاس بھی اسرائیل کیخلاف کارروائی کے حوالے سے انتخاب کم ہوگیاہے کیونکہ ایران اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور دیگر حملوں کے باوجود صبر کا دامن تھامے ہوئے تھا لیکن اب ایرا ن کیلئے بھی خاموش رہنا ممکن نہیں ہوگا، حزب اللہ نے حملوں کا جواب اور انتقام کا اعلان کردیا ہے جس کی وجہ سے خطے میں جاری آنکھ مچولی ، امریکا کی طرف سے نام نہاد امن معاہدے کے دعوؤں اور ساتھ ساتھ جاری حملوں کی قلعی کھلنے والی ہے۔
وہ لوگ جو امریکا میں صدارتی الیکشن سے زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا کملا ہیرس جو بھی صدر بنے ، امریکا کی اسرائیل نواز پالیسی میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور سلامتی کونسل میں پیجر دھماکوں کے حوالے سے قرار داد پہنچ چکی ہے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جیسا ماضی میں حماس اور غزہ کے معاملے میں ہوتا رہا ہے، یہ قرار داد بھی اسی نہج کا شکار ہوسکتی ہے۔