قانون جو کرپشن میں اضافہ کرسکتا ہے!

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہم خود ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو نہ صرف کرپشن کو فروغ دیتے ہیں بلکہ عام آدمی سے لے کر کاروباری طبقے تک ہر کسی کو متاثر کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم کوئی قانون بناتے ہیں تو اس کے صرف وہ پہلو دیکھتے ہیں جو ہمارے قانون سازوں کے ذاتی یا ادارہ جاتی مفادات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ قانون سازی میں توازن اور دوراندیشی کا فقدان ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث اصلاحات کے بجائے خرابیوں کا انبار کھڑا ہو جاتا ہے۔

آج جب معیشت کے اشاریے بہتری کی طرف گامزن تھے، ایسے میں نئی ٹیکس ترامیم نے کاروباری طبقے کو حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب معیشت کو سہارا دینے کی ضرورت ہے، ہم ایسے قوانین کیوں لا رہے ہیں جو نہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ رشوت کے بازار کو مزید گرم کریں گے؟

ٹیکس قوانین میں ترمیم 2025 کے تحت متعارف شدہ دفعات 138/8 (3A) اور 140 (6A) انتہائی متنازعہ قرار دی جا رہی ہیں۔ ان دفعات کے مطابق، اگر کسی کاروباری شخصیت پر ٹیکس ڈیمانڈ عائد کر دی جاتی ہے تو وہ فوری طور پر یہ رقم جمع کروانے کا پابند ہوگا، خواہ اس کے خلاف اپیل زیرِ سماعت ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاروباری افراد کو ایک غیر حتمی الزام پر بھی بھاری رقم جمع کروانی پڑے گی، اور پھر مہینوں یا سالوں تک عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ نتیجتاً، کاروباری طبقے کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: یا تو عدالتی کارروائی کی صبر آزما راہ اختیار کریں اور نقصان برداشت کریں، یا رشوت دے کر جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اس کے علاوہ نئی قانون سازی کے تحت ان لینڈ ریونیو کے افسران کو بھی غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ سیکشن 170C کے مطابق، ایف بی آر کسی بھی کاروبار پر اپنا ایک نگران افسر تعینات کرے گا جو پروڈکشن اور سروسز پر نظر رکھے گا۔ اس اقدام کا بظاہر مقصد نگرانی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے کاروباری حضرات روزانہ کی بنیاد پر ہراسانی کا شکار ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ افسران ذاتی مفادات کے لیے غیر ضروری چھاپے، طلبیاں یا دفتری رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔

تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایکسائز اور مانیٹرنگ اداروں کو بھی مزید اختیارات سونپے جا رہے ہیں۔ یہ اختیارات اگرچہ کاغذی طور پر نگرانی اور شفافیت کے لیے دیے گئے ہیں، لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ادارے کو اختیارات دیے گئے، ان کا ناجائز استعمال ہوا۔ ان اداروں کی بے جا مداخلت اور رشوت طلبی کی وجہ سے بہت سے کاروباری حضرات یا تو اپنا کاروبار سمیٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا کرپشن کا حصہ بن جاتے ہیں۔

پاکستان میں کاروبار کرنا پہلے ہی ایک مشکل عمل ہے، جہاں ایک کاروباری شخص کو اپنے کام سے زیادہ سرکاری محکموں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ اور جب ہر ادارہ رشوت طلب کرے گا تو لازماً کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوگا، جو بالآخر مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جو نہ صرف معیشت کو جکڑ لیتا ہے بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن بنا دیتا ہے۔

مزید برآں، اسی طرز کی قانون سازی محکمہ پولیس میں بھی کی جا رہی ہے۔ ایک مجوزہ قانون کے تحت موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے والوں پر دو ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں جہاں آج ایک پولیس اہلکار پانچ سو روپے کے چالان پر سو روپے رشوت لیتا ہے، وہاں کل وہ دو ہزار کے چالان پر ہزار روپے مانگے گا۔ اگر چالان کی رقم مناسب ہو تو لوگ جرمانہ ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، مگر جب رقم حد سے زیادہ ہو تو عوام مجبوراً رشوت دینا آسان سمجھتے ہیں۔ اس طرح قانون کی اصل روح مجروح ہو جاتی ہے۔

قانون سازوں کا یہ کہنا کہ بھاری جرمانے لوگوں کو قانون کا احترام سکھائیں گے، ایک ایسی سوچ ہے جو اُن ممالک میں تو کارگر ہو سکتی ہے جہاں ادارے شفاف اور کرپشن سے پاک ہوں، لیکن پاکستان جیسے کرپٹ نظام میں یہ صرف کرپشن کو مزید مستحکم کرے گا۔

اگر ہم نے اپنے قانون سازی کے انداز پر نظر ثانی نہ کی، تو وہ دن دور نہیں جب لوگ کاروبار چھوڑنے، سڑک پر نکلنے سے گھبرانے اور سرکاری اداروں سے مکمل لاتعلقی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قانون بناتے وقت سب سے پہلے ہمیں اپنے اداروں کو درست کرنا ہوگا۔ کرپشن کا خاتمہ اختیارات میں کمی اور احتساب کے سخت نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ کہ عوام کو مزید دبانے سے۔

ایک صحت مند معیشت وہی ہوتی ہے جہاں کاروباری طبقے کو آسانیاں دی جائیں، نہ کہ مشکلات۔ اگر عوام کو یقین ہو کہ ان سے لیا جانے والا ٹیکس شفاف انداز میں خرچ ہوگا اور افسران انہیں ہراساں نہیں کریں گے، تو وہ ازخود ٹیکس ادا کریں گے۔ اگر ٹریفک قوانین کا اطلاق ایمانداری سے ہو اور چالان کی رقم مناسب ہو، تو لوگ رشوت کے بجائے جرمانہ ادا کرنا بہتر سمجھیں گے۔

قانون کا مقصد سزا نہیں، بلکہ اصلاح ہونا چاہیے۔ جرمانے کا تصور اس لیے ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہو، لیکن اگر جرمانے کی جگہ رشوت لے لی جائے تو وہ احساس ختم ہو جاتا ہے، اور قانون بے معنی ہو جاتا ہے۔ اگر یہ قانون واپس نہ لیا گیا تو آئندہ چند ماہ میں ہم ٹیکس اور پولیس افسران کو بڑی گاڑیوں اور بنگلوں میں دیکھیں گے، جبکہ عام آدمی غربت اور ہراسانی کی چکی میں مزید پس جائے گا۔

ترقی صرف وہی قومیں کرتی ہیں جو اپنے عوام کو سہولت دیتی ہیں، قانون کی پاسداری کو سزا کی بجائے آسانی سے جوڑتی ہیں، اور جرائم کی اصل وجہ یعنی غربت کو ختم کرتی ہیں۔ بصورت دیگر، غربت مزید بڑھے گی، اور اس کی کوکھ سے جرائم جنم لیتے رہیں گے۔

Related Posts