لاہور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سبب دنیا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں درجہ بندی کے حساب سے پہلے نمبر پر آگیا ہے، جس نے شنگھائی اور نئی دہلی کو بھی شکست دیدی ہے، جو دونوں شہر آبادی اور جغرافیائی پھیلاؤ کے لحاظ سے لاہور سے کہیں زیادہ بڑے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
زہریلی سموگ ایک آفت بن چکی ہے جس کے پیش نظر ریلیف کمشنر پنجاب بابر حیات تارڑ نے فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑیوں پر پابندی کی تجویز دے دی ہے۔ مختلف شعبوں کے درمیان نفاذ، عملداری اور ہم آہنگی کے مسائل تاحال حل طلب ہیں۔
گاڑیوں کے معائنے اور سرٹیفکیٹ دینے والے ادارے نے آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں پر پابندی پر عمل درآمد، فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور تصدیق کے عمل کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ قصوروار پائے جانے والوں کو بھاری جرمانے کے ذریعے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا جس کا مقصد کاربن خارج کرنے والی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، جنہوں نے ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کو بہت زیادہ خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پہلے ہی، پنجاب حکومت کے محکمہ تحفظ ماحولیات نے چاول کی چھالوں، مضر صحت مواد اور ٹھوس فضلہ کو کھلے عام جلانے پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن ہم اب بھی شہر کے مراکز میں ہر میل یا اس سے کچھ فاصلے پر بھڑکتی ہوئی آگ دیکھ سکتے ہیں، زہریلی گیسوں کا ہوا میں اخراج کرنے والوں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا بیان سمجھ سے بالاتر ہے کہ سردیوں میں باربی کیو اور گرلڈ فوڈ میں اضافہ اس سموگ کی وجہ ہے جس کی وجہ سے لوگ انفیکشن اور الرجی کا شکار ہو رہے ہیں، جب تک حکومت اس سارے مسئلے پر سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتی، سموگ جاری رہے گی اور لوگ اسی طرح مشکلات میں گھرے رہیں گے۔
کوششیں تو کی جاتی ہیں مگر دو دہائیوں کے دوران، سموگ کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی مستقل پالیسی سامنے نہیں آئی،ہر شہری جانتا ہے کہ وہ موسم سرما اس کا سامنا کرے گا، بڑھتے ہوئے سموگ کے بحران کے حل کے لیے خاص اقدامات نہیں کئے جارہے، ہوا کو صاف کرنے کے لیے مکمل ہدایات و تجاویز اور کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔