احمقوں کی جنت میں تربیت کا فقدان۔۔

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Lack of Training in the Fool's Paradise

پاکستان کی معیشت کی ترقی کے ڈھول بجائے جا رہے ہیں، تاجر خوش ہیں، سیاستدان خوش ہیں، اور دنیا بھر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے، مگر کیا پاکستان کی عوام کو اس ترقی کے ثمرات مل رہے ہیں؟ کیا ان کے حالات زندگی میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟

جس ملک کے لوگ یومیہ بنیاد پر غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، اس ملک کی تجارت بڑھے تو غریب کے پیٹ کے اوپر لات ماری جاتی ہے، کیونکہ جو اشیاء غریب خریدنا چاہتا ہے، انہیں ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔

غریب عوام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر روزمرہ کی اشیاء خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ تاجر امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ پاکستان کے عوام کا یہ حق ہے کہ جو بھی اشیاء ایکسپورٹ ہوتی ہیں، وہ عوام کو کم نرخوں پر فراہم کی جائیں، اور جب وہ اشیاء وافر مقدار میں بچ جائیں تو انہیں ایکسپورٹ کیا جائے۔

پاکستان کے معاشی ماہرین حکومت کو تصویر کا وہ رخ دکھاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید پاکستان کی ترقی صرف اور صرف ان ایکسپورٹرز کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے۔

ایکسپورٹ بے شک ملک کی ترقی کا سبب بنتی ہے، تاہم اس کو غلط طریقے سے استعمال کرنے سے عارضی طور پر تو ملک ترقی کرتا ہے، مگر آگے چل کر عوام کی غربت بڑھتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا۔

پاکستان کا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہاں سرمایہ کاری کرتے وقت عوام کے بارے میں نہیں سوچا جاتا، بلکہ معیشت کے وہ اصول بتائے جا رہے ہوتے ہیں جو صرف کاغذوں میں اچھے نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، جس طرح قانون انسانوں کی بہتری کے لیے بنائے جاتے ہیں، مگر گزشتہ کئی برسوں سے قانون انسانوں پر تشدد کرنے اور انہیں غلام بنانے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔

حادثے سے بڑا سانحہ۔۔

جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کو دیکھا جائے تو ان کا سب سے پہلا کام وہ ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو سہولت ملے۔ عام آدمی کی بنیادی ضرورت ایک گھر ہے، روزگار جس سے وہ اپنی عزت کی زندگی گزار سکے، بچوں کی تعلیم، اور اچھا ماحول، جس کی وجہ سے اس کی صحت قائم رہے۔

ہمارے ملک میں صحت کے شعبے میں تو کوئی کام ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ انتظار کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی صحت خراب ہو، اور پھر ان کی ہمدردی کے لیے اسپتال بنا کر اپنے آپ کو سیاسی ہیرو بنایا جا سکے۔

آج پاکستان میں کینسر اور دل کے امراض بے تحاشہ ہو چکے ہیں، اور ان کے لیے اسپتال بھی بنائے جا رہے ہیں، مگر کوئی حکومت یہ نہیں سوچتی کہ یہ بیماریاں بڑھنے کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ہے غیر معیاری خوردنی اشیاء ہیں، جن پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا۔

خوردنی تیل انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے جو ہر انسان استعمال کرتا ہے، اور آج تک ہماری حکومت کو یہ نہیں پتہ کہ جی ایم او اور نان جی ایم او کی اہمیت تیل بنانے میں کیا ہے۔ ان بیچوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان سے کینسر جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

مطلب یہ کہ جو تیل ہم استعمال کر رہے ہیں، وہ کینسر جیسے امراض کو جنم دیتا ہے۔ جب کسی انسان کو کینسر ہو جاتا ہے تو کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ جو اشیاء ہم نے استعمال کی ہیں، ان کی وجہ سے کینسر ہوا ہے۔ نہ ان باتوں پر کبھی دھیان دیا جاتا ہے، نہ حکومت ایسی چیزوں پر ریسرچ کرنے کی زحمت کرتی ہے، جس سے ایسی امراض کو روکا جا سکے۔

اسی طرح تعلیم کی بات کریں تو بے تحاشا پرائیویٹ تعلیمی ادارے بنتے رہے ہیں، اور سرکاری ادارے ختم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب تعلیم کا یہ معیار ہے کہ نہ سرکاری اسکولوں میں، نہ پرائیویٹ اسکولوں میں حقیقی معنوں میں تعلیم دی جا رہی ہے۔ اسکولز کے ناموں کی برانڈنگ کے نام پر کاغذ کا ایک ٹکڑا تھما دیا جاتا ہے، جس سے نہ ان بچوں میں شعور آتا ہے، نہ تعلیم۔

پھر کہا جاتا ہے کہ پاکستانیوں کو لوگ نوکریوں پر کیوں نہیں رکھتے۔ تعلیم کو چھوڑیں، تو انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ جب گھر میں رہتا ہے تو اسے صرف چور اور ڈاکو کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ بجلی کے بل اور دیگر اخراجات کی فکر بھی ہوتی ہے۔

ہم نے 70 برسوں میں نیوکلیئر بم تو بنا لیا، لیکن عوام کو سستی بجلی فراہم نہیں کر سکے۔ ان سب جدوجہد کے بعد جب انسان ضعیف ہو جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی سے تنگ آ جاتا ہے اور مرنے سے پہلے روز مر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے پاس بزرگوں کے لیے کسی قسم کی نا آسائشیں نہیں ہیں، نہ ہی ان کو دینے کے لیے کوئی کام ہے۔

بزرگ ہونے کے بعد اس کے گھر والے اور حکومت صرف انہیں روزانہ کی بنیاد پر ان کی موت یاد دلاتے ہیں، جبکہ مہذب اقوام میں بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کے تجربات سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بزرگوں کو بادشاہ جیسی عزت اور اہمیت دی جاتی ہے۔

پاکستان میں بچپن سے بچوں کو غلام بنانے کی تربیت کے لیے اسکول بھیجا جاتا ہے، جہاں استاد ان کے آقا ہوتے ہیں، اور وہی تعلیم حاصل کر کے بچے جب بڑے ہوتے ہیں، تو وہ انسانیت کو بھول چکے ہوتے ہیں، کیونکہ انہوں نے آنکھ کھولتے ہی صرف اور صرف دنیا میں لوگوں کو اپنے لالچ کے لیے حکومت کرتے دیکھا ہوتا ہے، اور انسانیت کی صرف باتیں سنی ہوتی ہیں، عملی طور پر دیکھا نہیں ہوتا۔

یہاں بچوں کو انسانیت کے کام کے لیے اسکولز میں کوئی نمبر نہیں ملتے، اسی لیے بچوں کا رجحان مختلف اسباق میں نمبرز حاصل کرنے تک محدود ہوتا ہے، اور انہیں اسباق کو پڑھ کر جب وہ پروفیشنل زندگی میں داخل ہوتے ہیں، تو اچھے ڈاکٹر، انجینئر اور اچھے سیاستدان تو ہوتے ہیں، لیکن اچھے انسان نہیں بن سکتے۔

Related Posts