قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت سے ہونے والے قتل اور ہمارا نظامِ انصاف

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت سے ہونے والے قتل اور ہمارا نظامِ انصاف
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت سے ہونے والے قتل اور ہمارا نظامِ انصاف

آج سے 6 روز قبل یعنی 13 اگست کے روز حیات بلوچ نامی ایک طالب علم کو تربت میں ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت سے ہونے والے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

قبل ازیں پولیس اور رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اس قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں جن پر عوام نے ہمیشہ انصاف کا مطالبہ کیا۔آئیے ایسے ہی کچھ واقعات کا جائزہ لے کر اپنے نظامِ انصاف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

شہرِ قائد میں پولیس کے ہاتھوں ناحق قتل

کراچی میں آج سے 12 روز قبل مددگار 15 کے اہلکاروں نے آئی آئی چندریگر روڈ پر ٹیکنو سٹی کے قریب فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 معصوم شہری جان کی بازی ہار گیا جبکہ 1 شخص زخمی بھی ہوا۔ پولیس اہلکار میت اور زخمی شخص کو ہسپتال چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

رواں برس 15 اپریل کے روز جماعتِ اسلامی کے مطابق کراچی کے علاقے تیسر ٹاؤن میں مسلح افراد نے سیاسی کارکنان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 شخص جاں بحق اور 3 زخمی ہوئے۔ سرجانی پولیس نے اگلے ہی روز واقعے کا مقدمہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار سمیت 6 افراد کے خلاف قائم کیا۔

رینجرز کے ہاتھوں شہریوں کا قتل

آج سے 9 سال قبل یعنی جون 2011ء میں کراچی میں بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز اہلکار نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میٹرک کا ایک طالب علم سرفراز شاہ جاں بحق ہوگیا۔

اتفاق سے ایک سندھی نیوز چینل کے کیمرا مین نے ویڈیو ریکارڈ کر لی اور بعد ازاں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ سپریم کورٹ نے کیس میں رینجرز اہلکار کی سزائے موت کو معطل کرتے ہوئے عمر قید برقرار رکھی، گویا رینجرز اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی اور لواحقین کو انصاف مل گیا۔

اسی سال یعنی 2011ء میں ہی قومی اسمبلی میں بحث کے دوران بجٹ کی جگہ قتل کا واقعہ حاوی ہوگیا جس میں بتایا گیا کہ کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں رینجرز اہلکاروں نے ایک نہتے نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔

تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے واقعے کی شدید مذمت کی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن عبدالقادر خانزادہ نے کہا کہ اگرہم رینجرز کی یہ بات درست بھی مانیں کہ نوجوان کسی سے موبائل چھین رہا تھا تو سرِ عام گولی مارنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جانوں کے نذرانے

نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بلا شبہ سیکورٹی اداروں نے جن میں پولیس، رینجرز، ایف سی اور پاک فوج سمیت دیگر ادارےشامل ہیں، بے شمار قربانیاں دیں۔

اگر آج پاکستان میں ہم سکون سے رہ رہے ہیں اور ملک میں کچھ نہ کچھ امن و امان قائم ہے تو یہ سیکورٹی اداروں کی طرف سے دئیے گئے جانوں کے نذرانے اور بے مثال کارگزاری ہے جس کا صلہ ہم دیکھ رہے ہیں۔

کم و بیش 20 برس کی جنگ کے دوران سیکورٹی اداروں نے 9000 سے زائد جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ دہشت گردوں سے لڑائی کے دوران لگ بھگ 50 ہزار سے زائد شہری بھی جان سے گئے۔ 

ناحق قتل کی ممکنہ وجوہات 

ہم اگر ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایسے بے شمار واقعات نظر آئیں گے جن میں سیکورٹی اداروں یا کسی حکومتی اہلکار نے عوام کو ناحق قتل کیا جس کی متعدد ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔

غور کیا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مسلسل صبر آزما عمل ہے جس کے دوران سخت تربیت پا کر رینجرز یا پولیس سمیت کسی بھی قانونی ادارے میں بھرتی ہونے والے اہلکار ذہنی مریض بن سکتے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان مسلسل مار دھاڑ، لوٹ مار، قتل و غارت اور جرائم دیکھ دیکھ کر آہستہ آہستہ اچھے اور برے میں تمیز بھول سکتا ہے جس سے بچاؤ کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاک فوج کو سخت ٹرینگ دی جاتی ہے۔

ممکنہ طور پر کچھ نہ کچھ پولیس اہلکار ، رینجرز کے افسران یا دیگر سیکورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ہی ایسے جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔

کچھ ناحق قتل ذاتی دشمنی، حرص و ہوس، پیسے یا دیگر مفادات کیلئے بھی کیے جاسکتے ہیں تاہم جس قتل کے پیچھے موجود وجوہات معلوم نہ ہوسکیں اور کسی اہلکار کو بظاہر اس قتل سے کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا ہو، اسے نفسیاتی مرض کے باعث ہونے والا قتل قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

نظامِ انصاف کے مسائل اور سیکورٹی ادارے 

بلاشبہ پاکستان کا نظامِ انصاف عوام کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا شکار بنا رہا ہے۔ اگر کسی خاتون کی جائیداد اس کے بھائی ہتھیا لیں یا کوئی عام انسان فائرنگ کرکے اس کے کسی رشتہ دار کی جان لے لیں تو انصاف کا حصول ایسی صورت میں بھی مشکل نظر آتا ہے۔

لیکن جب بات اس سے آگے بڑھ کر خود پولیس اہلکاروں یا رینجرز یا کسی بھی دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کی آتی ہے تو یہ معاملہ اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے کیونکہ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نظامِ انصاف کی کس خرابی سے کب اور کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

حصولِ انصاف کیلئے اسلامی اصول

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے حضورِ اکرم ﷺ سے ایک عورت کی سفارش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، وہ اِسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ وہ غریب لوگوں پر تو شرعی حکم نافذ کرتے تھے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔

نبئ آخر الزمان ﷺ نے فرمایا کہ میں اُس پروردگار کی قسم کھاتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میری بیٹی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔

یعنی انصاف حاصل کرنے کیلئے اسلام کا سب سے بڑا اصول مساوات ہے۔ جس ملک میں عام شہری کو قتل کی سزا موت اور قانون نافذ کرنے والے کو صرف عمر قید ہو، اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ حکومت کو عوام و خواص دونوں کیلئے قوانین یکساں بنانے کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts