ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے شورٹی بانڈ اور ضمانت کا قصہ دیکھئے تو مادہ کوبرا کی طرح ہماری عدلیہ نے بھی اپنے بچوں کو بھیڑیوں کے پاس پھینک دیا، یعنی اپنے بعض تاریخی فیصلوں کو کاغذ کے بے معنی ڈھیر بنا کر دفاتر کی نذر کردیا۔
مریم نواز کے متعلق جتنا سوچا جاتا ہے، اتنی ہی حیرت اس عدالتی کرتب پر ہوتی ہے جو سیاسی بازیگروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی تھی، اس کا پیمانہ بھی غیر معمولی رہا۔ مستقبل کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں ایک بنچ نواز شریف اور نیب کو نااہل قرار دیتا ہے۔ عدالت نے انہیں ایک کیس میں جیل اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی اور دوسرے کیس میں مشکوک طور پر بری کر دیا گیا۔
سیاسی رہنما اپیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ بیٹی مریم نواز کی جارحانہ چال نے جعلسازی، جھوٹ اور بے بنیاد بیان بازی میں اپنے والد کو پیچھے چھوڑ دیا۔اسے مجرم قرار دیا گیا ہے اور اسے 7 سال قید کی سزا سنائی گئی پھر ایک فونٹ کی باضابطہ مارکیٹنگ سے ایک سال قبل کیلیبری فونٹ میں ایک دستاویز کی جعلسازی پر کیلیبری کوئین کے طور پر ہتک آمیز خطاب سے بھی نوازا گیا۔
عدالتی جھگڑا تو دراصل اس کے بعد شروع ہوا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کی بدولت نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں ایک شہزادے کی طرح اور بالآخر اس کی بیٹی بھی شہزادی کی طرح رہنے لگی۔ پھر نواز شریف اور اس کے گینگ نے نواز شریف کی جان کو خطرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئے انوکھا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل درآمد کیا۔
پلیٹ لیٹس کا بہانہ گھڑا گیا۔ طبی ماہرین کے ذریعے بیرونِ ملک فرار کا راستہ کھولا گیا اور پھر عدالت سے علاج کی غرض سے باہر جانے کا فیصلہ حاصل کرکے ایسے روانہ ہوئے کہ اب کبھی وطن واپس نہیں آئیں گے۔ دھوکہ دہی اور جھوٹ کی اس شرمناک کہانی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ کا کردار ہماری اعلیٰ عدلیہ پر ایک انمٹ سیاہ دھبہ بنا ہوا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریاست سے خدائی ضمانت مانگی کہ کیا نواز شریف اگلے 3 دن زندہ رہیں گے؟ اس بالکل احمقانہ سوال کا صحیح جواب یہ ہوتا کہ کیا عدالت کے پاس زندگی کی ضمانت ہے کہ وہ آئندہ تاریخوں میں زیر التواء فیصلوں کا اعلان کرنے کیلئے یقینی طور پر زندہ رہے گی؟
دریں اثناء لاہور ہائیکورٹ نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں اس عادی جھوٹے کو اس کے اتنے ہی جھوٹے چھوٹے بھائی کے 50 روپے کے حلف نامے پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے کر لاہور کے ڈان کو مجبور کرنے میں خود کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے کبھی بھی شہباز شریف سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ نواز شریف دو سال گزرنے کے باوجود واپس کیوں نہیں آئے اور عدالت کے سامنے اپنے بیان حلفی کے مطابق انہیں واپس لانے میں ناکامی پر انہیں کیوں نہ پکڑا جائے؟
لاہور ہائیکورٹ مہربان ہے لیکن منتخب طور پر جبکہ نواز شریف لندن میں اپنے محلاتی بلکہ ناقابل بیان حد تک متمول فلیٹس میں سے کچھ ہی دیر میں پلیٹ لیٹس بحال کرتے نظر آرہے تھے، جاتی عمرہ مریم نواز نے اپنے بیمار والد کی واپسی کی امید کے ساتھ حاضری دینے کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی، انہیں ضمانت مل گئی لیکن اس کے والد کبھی نہیں آئے۔
کم و بیش 2 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ مریم نواز اس غیر معمولی عدالتی شفقت بھری ضمانت پر ہیں اور ان کا کام عدلیہ کا تمسخر اڑانا، دھمکیاں دینا اور سپریم کورٹ کو حکم دینا ہے کہ ان کے سامنے ہونے والے مقدمات میں کیا فیصلہ دیا جائے اور کیا نہیں؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی عدالت ان کو روک نہیں پائی۔ ایسا کیوں ہے، ہر سوچنے والے شخص کو سوچنا ہوگا۔ اس نے عوامی طور پر دعویٰ کیا اور کچھ اہم شخصیات کی نازیبا ویڈیوز رکھنے کے لیے بدنام ہوئیں جس طرح وہ مرحوم جج ارشد پر اپنے والد کو ایک مقدمے میں بری کرنے کے لیے دوسرے فیصلے کو مشکوک بنانے کے لیے دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہی۔
کیا کسی ممکنہ بے حیائی کی نمائش کی دھمکی اتنی جامع ہوتی ہے کہ اس کے خلاف مناسب اور مطلوبہ عدالتی کارروائی ناممکن ہوجائے؟ اس کی بہت سے طریقوں سے ایک عجیب ضمانت ہے۔ اس سے پہلے کبھی نہیں اور اس کے بعد بھی کوئی عورت کبھی بھی اس بات کی توقع نہیں کرے گی کہ وہ نایاب اور خصوصی عدالتی کارروائی ہوگی۔ پاکستان کی ہائی کورٹس کا استحقاق جیسا کہ مریم نواز کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ کیا کوئی ادارہ بتا سکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا شریفوں کے گھر پر کیا اور کتنا واجب الادا ہے؟
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا اور نیب کے قوانین کو بگاڑنا بھی کیا اسی استحقاق میں شامل ہے؟
پی ڈی ایم جس نے بظاہر کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ہٹا دیا تھا اس نے جلد ہی دکھاوا چھوڑ دیا اور اپنے اصل ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کی اصل ترجیحات میں سب سے پہلے نیب کو بے کار کرنا اور بالآخر زندہ دفن کرنا تھا، انہوں نے نیب قوانین میں ترامیم کو عملی طور پر نافذ کردیا۔ ادارے کو یتیم خانہ بنا دیا اور اس عمل میں ان کی موٹی لوٹ مار کرنے والی گردنوں سے ہمیشہ لٹکتی تلوار کو ہٹا دیا۔ یعنی 1100 ارب روپے کا عوامی پیسہ ان چوروں کے ہاتھ لگ گیا، اگر یہ لٹیرے اس طرح کی تکنیکی چالوں سے قانون کو چکمہ دیتے رہے اور عدلیہ پکڑنے میں ناکام ہی رہی، تو یقین رکھیں عوامی ردعمل جب بھی ہو گا، پرتشدد اور مار دھاڑ پر مبنی ہو گا۔ اسے کوئی روک نہیں سکے گا کیونکہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے لفظی طور پر لوگوں کے بچوں سے کپڑے چھین لیے، ان کے منہ سے کھانا چھینا اور ان کے خاندانوں کو بھوک، بیماری، غذائی قلت، قحط اور خودکشیوں پر مجبور کردیا۔ انہی لوگوں نے اس عظیم قوم اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور ہمیں عالمی بھکاری بنا دیا۔ ان کے پختہ کاموں اور ہموار نظروں کے لالچ میں نہ آئیں، یہ کامیاب دھوکے باز اور جینیاتی جھوٹے ہیں جو ججوں کو کامیابی کے ساتھ دھوکہ دینے پر اپنی آستینوں میں ہنستے ہیں۔ عدلیہ کبھی کبھی بیٹھ کر ان کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات کا جائزہ بھی لے جو آسانی سے کسی بھیڑیے کو بھی مات دے سکتے ہیں۔
جب کسی مضبوط مخالفت کا سامنا ہو تو ہچکچانا اچھا اور بہادری نہیں ہوا کرتی لیکن کمزور پر بڑے الزام عائد کرنا ظلم ہے۔ اس طرح کے تغیرات عوامی یادداشت میں چلے جاتے ہیں اور غلط وقت پر غیر متوقع طریقوں سے غیر متوقع نتائج کے ساتھ پھوٹ پڑتے ہیں۔ عوامی ردعمل کا اندازہ لگانے لیے سری لنکا کی حالیہ ہلچل کو ذہن میں رکھنا مناسب ہوگا۔
اب اس سوال پر آئیے کہ حکومت تبدیلی کی سازش کیا تھی؟ حالیہ تاریخ میں امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے پاکستان میں مکمل عوامی نظریہ کے ساتھ کھیلی جانے والی بازنطینی سازش کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ یہ ہدف بنائے گئے ممالک میں حکومت کی تبدیلی کے لیے پوشیدہ جوڑ توڑ کی امریکی عادت کے بالکل برعکس تھا۔ دوسری بڑی وجہ ان کا اندازہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستانی عوام کو ان کے مقامی ایجنٹوں نے مکمل طور پر غلام اور بدعنوان بنا دیا ہے اور وہ امریکا کی پیش کی ہوئی حکومت کو خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک غلطی اور بری طرح سے ناکام آپریشن نکلا۔ اور امریکا بھی اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا۔ عمران خان کی شخصیت اور اس کی مقبولیت نے عوام کو گرویدہ بنا رکھا ہے۔ ایک مضبوط عمران خان کو آپ کی نگرانی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ڈھٹائی سے خریدا گیا اور ہیرا پھیری سے ہٹا دیا گیا۔
اعلیٰ عدالتیں رات کے وسط میں انصاف کی فراہمی کیلئے نہیں بلکہ پی ٹی آئی حکومت کے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی ممکنہ (جائز) اقدام کو روکنے کے لیے کھولی گئیں، جیسا کہ حال ہی میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے واضح کیا ہے۔
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی اور پی ٹی آئی کے سپیکر قومی اسمبلی کے سپریم کورٹ کو خطوط جس میں بدنام زمانہ سائفر کی کاپیاں موجود ہیں اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے۔
عمران خان کی برطرفی سے پہلے اور بعد کے واقعات کا بہاؤ دیکھئے تو ڈونلڈ لو کی پاکستان کو ذاتی طور پر ہمارے سفیر کے لیے انتہائی متکبرانہ انتباہ اور عمران خان کی قائل منطق اور عوام سے اپیل کے ہنر مندانہ استعمال نے امریکہ اور اقتدار میں اس کے ساتھیوں کی نیندیں اڑا دیں۔ جب سے وہ نقصان پر قابو پانے میں مصروف ہیں اور بری طرح سے ناکام ہو رہے ہیں، اس طرح کہ مہینوں میں عمران خان پھر مظبوتی کی پوزیشن پرآ گیا ہے اور کسی بھی وقت حکومت بنانے کے قریب ہے۔
راقم الحروف اپنی نہایت قابلِ احترام عدلیہ کو تجویز کرسکتا ہے کہ اس سے پہلے کہ عدالتی انکوائری پر سنجیدگی سے غور ہو، اور بہت دیر ہوجائے، لوگوں کا غم و غصہ آسمان چھونے لگے، عوام حقائق جاننا چاہتے ہیں، بصورتِ دیگر عمر خیام کے مندرجہ ذیل اشعار کے مطابق، بہت دیر ہوجائے گی:
متحرک انگلیاں لکھتی چلی جاتی ہیں
اور رٹ قائم ہونے پر مزید آگے بڑھتی ہیں
آپ کی ظرافت اور نہ ہی پارسائی کام آئے گی
اگر کوئی غلطی کی ہے تو آدھے راستے سے مڑ جائیے
کیونکہ آپ کے آنسو آپ کی غلطی نہیں دھو سکتے
متحرک انگلیوں نے اپنی پوروں کو روشنائی میں بھگو دیا ہے